الخصائص العشر لليلة القدر
ماجد بن سليمان الرسيموضوع الخطبة:الخصائص العشرة لليلة القدرالخطيب: فضيلة الشيخ ماجد بن سليمان الرسي/ حفظه اللهلغة الترجمة: الأردوالمترجم:سيف الرحمن التيمى((@Ghiras_4Tعنوان: شب قدر کی دس خصوصیاتإن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا)(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا)حمد وثنا کے بعد!سب سے بہترین کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہترین طریقہ محمد کا طریقہ ہے، سب سے بدترین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں، اور (دین میں) ہر ایجاد کردہ چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔اے مسلمانو! میں تمہیں اور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ وصیت ہے جو اللہ نے پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کو کی ہے: (وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ)ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں اور اس سے ڈرتے رہیں ، اس کی اطاعت کریں اور اس کی نافرمانی سے گریز کریں، جان رکھیں کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے پیش نظر بعض وقتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، چنانچہ ذی الحجہ کے دس دنوں کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت دی ہے، عرفہ کے دن کو سال کے تمام دنوں پر برتری عطا کی ہے، رمضان کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت بخشی ہے اور شب قدر کو رمضان کی تمام راتوں سے افضل قرار دیا ہے ، شب قدر کی دس خصوصیات ہیں جو حسب ذیل ہیں:پہلی خصوصیت:یہ وہ رات ہے جس کو اللہ نے یہ خصوصیت بخشی کہ اس میں نزولِ قرآن کا آغاز کیا ، اللہ تعالی فرماتا ہے: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ)ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔اسی رات میں قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں نازل ہوا جو آسمان دنیا میں ہے ، پھر وہاں سے حوادث وواقعات کے مطابق بتدریج نازل ہوتا رہا۔شب قدر کو اس نام سے موسوم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات کی بڑی قدر ومنزلت ہے، جیسے کہا جاتا ہے (فلاں شخص بڑی قدر ومنزلت کا حامل ہے) ، چنانچہ قدر کی طرف رات کی اضافت ، کسی چیز کو اس کی صفت کی طرف منسوب کرنے کے قبیل سے ہے۔ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس رات میں پورے سال کے معاملات مقدر (طے) کیے جاتے ہیں، یعنی سالانہ تقدیر طے کی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ)ترجمہ: اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ابن القیم کہتے ہیں کہ : یہی قول درست ہے()۔()چنانچہ اس رات میں یہ فیصلہ لیا جاتا ہے کہ آنے والے سال میں کون سے امور انجام پانے ہیں، یعنی اللہ تعالی فرشتوں کوپورے سال کی روداد سے باخبر کرتا ہے، انہیں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ آئندہ سال کی شب قدر تک واقع ہونے والے تمام امور سے متعلق ذمہ درایوں کا حکم دیتاہے، چنانچہ ان کے سامنے موت، رزق ، فقیری وامیری ، ہریالی وقحط سالی ، صحت وبیماری ، جنگ وجدال اور زلزلے اور اس سال رونما ہونے والے تمام حوادث واضح کردیے جاتے ہیں()۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتےہیں :شب قدر میں لوح محفوظ سے، آنے والے سال کےدرمیان واقع ہونے ولی موت وحیات، رزق اور بارش نقل کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ حاجیوں کے بارے میں بھی لکھ لیا جاتاہے کہ فلاں اور فلاں حج کریں گے()۔شب قدر کی دوسری خصویت یہ ہے کہ: اس میں فرشتے زمین پر نازل ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: (تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا)ترجمہ: اس میں فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔روح سے مراد جبرائیل ہیں، ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: یعنی یہ رات چونکہ بڑی برکتوں والی رات ہوتی ہے ، اس لیے کثرت سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، برکت اور رحمت کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں، جس طرح تلاوت قرآن کے وقت فرشتے نازل ہوتے ہیں، علمی مجالس کو گھیر لیتے ہیں اور صدق نیت کے ساتھ حصولِ علم میں مصروف رہنے والے طلبہ کی تعظیم میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔انتہیشب قد کی تیسری خصوصیت:اللہ تعالی نے اس رات کو بابرکت قرار دیا ہے، اللہ تعالی نزولِ قرآن کے تعلق سے فرماتاہے: (إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ)ترجمہ: یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے۔شب قدر کی چوتھی خصوصیت: اللہ تعالی نے اسے سلامتی کی رات کہا ہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے، یعنی ہر قسم کے شرور وفتن سے سلامتی (کی رات) ، کیوں کہ اس میں خیروبھلائی کی بہتات ہوتی ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔شب قدر کی پانچویں خصوصیت: جو شخص اس رات کو قیام کرے، یعنی اسے نماز سے آباد کرے، (ایمان کے ساتھ) یعنی اللہ تعالی اس عظیم رات میں قیام کرنے والوں کے لیے جو اجروثواب تیار کررکھا ہے ، اس پر ایمان رکھتے ہوئے، (احتساب کے ساتھ) یعنی: اجروثواب کی امید کرتے ہوئے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں"()۔شب قدر کی چھٹی خصوصیت: اس رات کو نماز سے آباد کرنا ہزار راتوں کی عبادت سے بہتر ہے ، یعنی تراسی (۸۳) سالوں سے بھی زیادہ، اللہ تعالی فرماتاہے: (لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ)ترجمہ: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آ چکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کر دیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا“()۔ابن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ایسا (انعام ہے) جس کے سامنے عقل حیران اور ذہن پریشان ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو ایک ایسی رات سے سرفراز کیا ہے جس رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت كى مانند ہے، جوکہ ایک لمبی عمر والے انسان کی زندگی کے برابر ہے ، اسّی (۸۰) سال سے بھی زائد ()۔انتہى مع اختصار وتصرفشب قدر کی ساتویں خصوصیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کی تلاش کے لیے جس قدر محنت کرتے تھے اتنی محنت دیگر ایام میں نہیں کرتے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت میں اتنی کوشش کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے()۔عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے، (عبادت میں) نہایت کوشش کرتے اور کمر کس لیتے اور ہمت باندھ لیتے تھے()۔(کمر کس لیتےاور ہمت باندھ لیتے ) اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لیے تیار رہتے ، اس میں محنت ولگن سے کام لیتے، اور عادت سے کہیں زیادہ عبادت کرتے ، ایک قول یہ بھی ہے کہ عورتوں سے الگ رہتے اور جماع سے باز رہتے۔شب قدر کی آٹھویں خصوصیت:نبی صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر اعتکاف کیا کرتے تھے، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں()۔ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے شب قدر کو تلاش کرنے کے لیے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا، پھر میں نے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا ، پھر میرے پاس (جبرئیل کی آمد ہوئی تو) مجھ سے کہا گیا: وہ آخری دس راتوں میں ہے تو اب تم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف کرلے()۔اے اللہ کے بندو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس قدر محنت ولگن سے عبادت کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہےکہ آپ فضیلت والے اوقات میں اطاعتِ الہی کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے، اس لیے مسلمانو ں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنی چاہئے کہ آپ ہی اسوہ ونمونہ ہیں، ہم مسلمانوں کو خوب دلجمعی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنی چاہئے اور شب وروز کی گھڑیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے ، کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ کب لذتوں کو توڑنے اور لوگوں سے جدا کردینے والی موت اسے اپنے شکنجے میں لے لے ، پھر اس وقت اسے ندامت ہو جب ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا()۔شب قدر کی نویں خصوصیت: اس رات میں خصوصیت کے ساتھ اللہ سے معافی طلب کرنے کی ترغیب آئی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہانے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے نبی ! اگر میں لیلۃ القدر پا لوں تو کیا دعا مانگوں؟ آپ نے فرمایا: "یوں کہنا : (اللهم إنک عفو تحب العفو فاعف عني) یعنی: اے اللہ ! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے ، تو معاف کرنا پسند کرتا ہے ، لہذا مجھے معاف فرمادے۔ شب قدر کی دسویں خصوصیت: اللہ تعالی نے اس کی فضیلت میں ایک سورہ نازل فرمائی جو قیامت تک تلاوت کی جاتی رہے گی، اس کے ذریعہ اس کی عظمت شان کو واضح کیا، اس کی عظمت کی وجہ یہ بیان کیا کہ اس رات قرآن نازل کیا گیا، نیز یہ بھی ذکر کیا کہ اس رات فرشتے زمین پر اترتے ہیں، نیز جو اس رات کو نماز او رعباد ت میں گزارتا ہے اس کا کیا اجروثواب ہے، اس رات کے آغاز اور انتہا کی وضاحت فرمائی ، تمام تعریفات اس اللہ کے لیے ہے جس نے بندوں پر لطف ومہربانی کرتے ہوئے انہیں نیکیوں کے موسم بہار سے سرفراز فرمایا۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اسی طرح رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دے جس طرح اسے پسند ہے ، اور اپنے ذکروشکر اور حسنِ عبادت پر ہماری مدد فرمائے۔اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ، میں اپنی یہ بات کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔دوسرا خطبہ:الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى، أما بعد:آپ جان رکھیں-اللہ آپ پر رحم فرمائے –کہ اللہ عزیز وبرتر نے شب قدر کو اپنی حکمت کے پیش نظر مخفی رکھا ہے، وہ حکمت یہ ہے کہ بندہ مومن اس کی تلاش میں مکمل دس راتیں عبادت کرے، تاکہ بڑے اجروثواب سے ہمکنار ہو، اس کے برخلاف اگر معلوم ہوتا کہ شب قدر کونسی تاریخ کو ہوتی ہے تو وہ صرف اسی رات میں عبادت کرتا۔اگر شب قدر کے بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ کونسی رات ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں پوری دس راتیں اعتکاف نہ کرتے اور نہ اپنی امت کو یہ رہنمائی کرتے کہ اس کی جستجو میں دس رات اعتکاف کیا کریں، بلکہ صرف شب قدر میں ہی آپ اعتکاف کرتے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے مکمل دس راتوں میں اس کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے، کیوں کہ اس کا وقت نا معلوم ہے‘ آپ نے اپنی امت کو یہ ترغیب دی کہ بطور خاص طاق راتوں میں اسے تلاشیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ طاق رات میں شب قدر ہونے کا زیادہ امکان ہوتاہے ، عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "شب قدر کو رمضان کے آخرے عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو"()۔ معلوم ہوا کہ نصوص اس بات پر دال ہیں کہ شب قدر ہر سال الگ الگ راتوں میں واقع ہوا کرتی ہے، لیکن ان دس راتوں کے اندر ہی محصور رہتی ہے۔اس لیے مومن کو چاہئے کہ آخری عشرے کی تمام راتوں کے اندر عبادت میں مصروف رہے ، لوگ سوشل نیٹورک پر جو نشر کرتے پھر تے ہیں کہ شب قدر فلاں رات کو ہی ہوتی ہے ، اس سے محتاط رہے ، یہ ایسی بات ہے جو وقت کی بربادی اور عمل سے دوری کی طرف لے جاتی ہے۔ اے اللہ کے بندو! مومن کو چاہئے کہ آخری عشرے میں دیگر ایام کے بالمقابل زیادہ محنت ولگن سے عبادت کرے ، اس کی دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ: شب قدر کی تلاش وجستجو ، دوسری یہ کہ : یہ مہینہ اس سے رخصت ہورہا ہوتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ آئندہ سال اسے یہ مہینہ نصیب ہوگا یا نہیں()۔آپ یہ بھی جان رکھیں –اللہ آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے - کہ اللہ تعالی نے آپ کو ایک بڑی چیز کا حکم دیا ہے، فرمان باری تعالی ہے: (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا)ترجمہ: اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔اے اللہ !تو اپنے بندے اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی بھیج،تو ان کے خلفاء ،تابعین عظام اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں سے راضی ہوجا۔اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت وسربلندی عطا فرما،شرک اور مشرکین کو ذلیل وخوار کر،تواپنے اور دین اسلام کے دشمنوں کو نیست ونابود کردے،اور اپنے موحد بندوں کی مدد فرما ۔اے اللہ! ہمیں اپنے ملکوں میں امن وسکون کی زندگی عطا کر، اے اللہ! ہمارے اماموں اور ہمارے حاکموں کی اصلاح فرما،انہیں ہدایت کی رہنمائی کرنےوالا اور ہدایت پر چلنے والا بنا۔ اے اللہ! تمام مسلم حکمرانو ں کو اپنی کتاب کو نافذ کرنے، اپنے دین کوسربلند کرنے کی توفیق دےاور انہیں اپنے ماتحتوں کے لیے باعث رحمت بنا۔اے اللہ! ہم تجھ سے دنیا و آخرت کی ساری بھلائی کی دعا مانگتے ہیں جو ہم کو معلوم ہے اور جو نہیں معلوم، اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں دنیا اور آخرت کی تمام برائیوں سے جو ہم کو معلوم ہیں اور جو معلوم نہیں۔اے اللہ! میں تجھ سے جنت کا طالب ہوں اور اس قول و عمل کا بھی جو جنت سے قریب کر دے، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں جہنم سے اور اس قول و عمل سے جو جہنم سے قریب کر دے۔اے اللہ! ہمارے دین کو درست کر دے، جو ہمارے (دین و دنیا کے) ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور ہماری دنیا کو درست کر دے جس میں ہماری گزران ہے اور ہماری آخرت کو درست کر دے جس میں ہمارا (اپنی منزل کی طرف) لوٹنا ہے اور ہماری زندگی کو ہمارے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور ہماری وفات کو ہمارے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات بخش۔عباد الله، إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى، وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي، يعظكم لعلكم تذكرون، فاذكروا الله العظيم يذكركم، واشكروه على نعمه يزدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.از قلم:ماجد بن سلیمان الرسی۲۵ رمضان ۱۴۴۲ھشہر جبیل-سعودی عرب00966505906761مترجم: سیف الرحمن تیمی
تم تحميل المحتوى من موقع
الجمهرة معلمة مفردات المحتوى الأسلامي