زوجها عمها بغير رضاها وزوجها يشرب الخمر ويضربها

لڑكى كى رضامندى كے بغير چچا نے شادى كر دى اور خاوند شراب نوشى كرتا اور اسے زدكوب بھى كرتا ہے


سؤال أجاب عنه فضيلة الشيخ محمد صالح المنجد - حفظه الله - ، ونصه: «أود أن أقص لكم قصتي ومشكلتي. راجيا منكم الإجابة. قبل سنة تعرفت مع فتاة طيبة الخلق وتواعدنا على الزواج بعد إكمال الدراسة. ولكن في يوم من الأيام جاءني الخبر أنه عرضت لها خطبة من قبل إنسان غير معروف لديها وأن عمها وافق بل تعهد أن يزوجها منه مع وجود الأب والأخ ، والأب كان ساكتا لم يقل شيئا مع أنه وابنته غير موافقين على هذا الزواج والكلمة الأخيرة عند العم لأنه هو الأكبر في العائلة جميعا.وبعد المخاصمة الطويلة أجبرها عمها بدون إذنها على النكاح مع كونها بكرا. وبعد مضي شهر تبين أن زوجها يشرب الخمر وكثيرا ما يأتي إلى البيت وهو سكران ويضربها ويسبها. ولا يتمسك بأحكام الدين تماما. مع كوني متمسك متدين والحمد لله حتى قلت لها لو تزوجتك ستلبسين الحجاب وشرحت لها كل واجبات المرأة فكانت راضية بذلك. عندما رجع أخوها الأكبر من السفر كان غائبا حينذاك علم أن أخته تزوجت مجبرة من دون إذنها وأن زوجها يشرب خمرا ويضربها فأعادها إلى البيت وهي غير مطلقة -الآن هي في البيت-. السؤال الأول : هل يعتبر هذا النكاح صحيحا بدون إذنها؟ وهل كان العم مستحقا أن يزوجها مع وجود الأب والأخ؟ السؤال الثاني : لو عرض له الطلاق لن يوافق على الطلاق لأنه يعرف أنني أريد زواجها ، الآن بعدما أعادها الأخ إلى البيت هل يجوز للقاضي أو الإمام أن يطلقها؟ لو رفض زوجها الطلاق ؟ وهل في الإسلام تكافؤ في الدين ؟ ألست أحق بها منه مع كوني الآن طالب علم في الجامعة الإسلامية؟».
ميں آپ كے سامنے اپنا قصہ اور پر مشكل پيش كرنا چاہتا ہوں اميد ہے آپ اس كو مدنظر ركھتے ہوئے مجھے جواب ديں گے:<br /> ايك برس قبل دوران تعليم ميرا ايك بااخلاق لڑكى سے تعارف ہوا اور تعليم مكمل كرنے كے بعد ہم نے شادى كرنے كا وعدہ بھى كيا، ليكن ايك دن مجھے علم ہوا كہ اس كى ايك ايسے شخص كے ساتھ منگنى ہو گئى ہے جسے وہ جانتى تك نہيں، اور اس كے چچا اس شادى پر موافق ہيں، بلكہ اس نے اس آدمى كے ساتھ اس كى شادى كرنے كا وعدہ بھى كر ليا ہے، حالانكہ لڑكى كا والد اور بھائى موجود ہيں.<br /> باپ خاموش رہا اور اس نے كوئى بات نہيں كى، حالانكہ وہ اور اس كى بيٹى دونوں ہى اس شادى پر موافق نہيں، ان كے گھر ميں چچا كى بات چلتى ہے كيونكہ وہى خاندان ميں بڑى عمر كا ہے، طويل جھگڑے كے بعد چچا نے جبرا اسے نكاح پر مجبور كر ديا حالانكہ وہ كنوارى ہے.<br /> اور ايك ماہ گزرنے كے بعد علم ہوا كہ اس كا خاوند شراب نوشى كرتا ہے، اور اكثر گھر آتا ہے تو نشہ كى حالت ميں اور بيوى كو زدكوب كرتا اور گالياں نكالتا ہے، اور مكمل طور پر اسلامى احكام پر عمل نہيں كرتا.<br /> حالانكہ ميں الحمد للہ دين پر عمل كرنے والا ہوں، حتى كہ ميں نے اس كو كہا تھا اگر ميں نے تجھ سے شادى كى تو تم پردہ كرو گى، اور ميں نے عورت كے سارے فرائض بھى اسے بتائے تو وہ اس پر راضى تھى، اس لڑكى كا بڑا بھائى سفر پر گيا ہوا تھا جب وہ سفر سے واپس آيا تو اسے علم ہوا كہ اس كى بہن كى جبرا شادى كر دى گئى ہے، اور اس كا بہنوئى شراب نوشى كرتا اور بہن كو زدكوب كرتا ہے، تو وہ اپنى بہن كو گھر لے آيا اسے طلاق تو نہيں ہوئى ـ ليكن وہ والدين كے گھر ميں ہے ـ.<br /> پہلا سوال يہ ہے كہ:<br /> كيا اس لڑكى كى اجازت كے بغير يہ نكاح صحيح شمار ہو گا ؟<br /> اور كيا باپ اور بھائى كے ہوتے ہوئے چچا كو بھتيجى كى شادى كرنے كا حق حاصل تھا ؟<br /> دوسرا سوال يہ ہے كہ: اگر اس سے طلاق طلب كى جائے تو وہ طلاق نہيں دےگا، كيونكہ وہ جانتا ہے كہ ميں اس سے شادى كرنا چاہتا ہوں، اب جبكہ بھائى اسے گھر لے آيا ہے اور خاوند طلاق دينے سے انكار كر دے تو كيا قاضى يا امام كے ليے اسے طلاق دينا جائز ہے ؟<br /> اور كيا اسلام ميں دين كى برابرى نہيں ہے، كيا ميں اس لڑكى كا زيادہ حقدار نہيں جبكہ اب ميں اسلامى يونيورسٹى كا طالب علم ہوں ؟

بطاقة المادة

المؤلف محمد صالح المنجد
القسم مقالات
النوع مقروء
اللغة الأردية