الغصب
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر کسی نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔"  
عن عائشة -رضي الله عنها- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَنْ ظَلَم قِيدَ شِبْرٍ مِن الأرْضِ؛ طُوِّقَهُ مِن سَبْعِ أَرَضِين».

شرح الحديث :


ایک انسان کا مال دوسرے انسان پر حرام ہے، لہذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اور کے حق میں سے اس کی رضامندی و خوش دلی کے بغیر کچھ بھی حصہ حاصل کرے۔ اور ناحق مال لینے کی بدترین شکل کسی کی زمین کو ظلما ہڑپ لینا ہے؛ اس لیے کہ یہ ظالمانہ قبضہ مدت دراز تک قائم رہتا ہے۔ اسی بنا پر نبی ﷺ نے آگاہ فرمادیا کہ جو شخص کسی کی زمین ہڑپ لے؛ کم ہو یا زیادہ، وہ روز قیامت سخت ترین عذاب کے ساتھ حاضر ہوگا۔ چنانچہ اس کی گردن انتہائی موٹی اور دراز تر کردی جائے گی اور پھر غاصبانہ طور پر حاصل کردہ زمین اور اس زمین کے نیچے سات گنا اراضی کا طوق بناکر اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ یہ صاحب کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کے ظالمانہ عمل کا بدلہ ہوگا۔ خیال رہے کہ اس وعید میں ان عام اراضی کا استعمال شامل نہیں، جو بغیر ملکیت اور قبضہ کے استعمال میں لائے جائیں۔ ابن قدامہ رحمہ اللہ ”المغنی“ میں رقم طراز ہیں: سڑکوں، راستوں اور آبادی کے درمیان واقع و سیع اراضی کی آبادکاری کسی کے لیے جائز نہیں؛ چاہے وہ کشادہ ہوں یا تنگ، چاہے اس کی بنا پر لوگوں کو تنگی کا سامنا ہو یا نہ ہو۔ کیوں کہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت اور ان کے اجتماعی مفادات وابستہ ہیں۔ لہٰذا یہ بھی(مفاد عامہ کے طور پر) ان کی مساجد کے مشابہہ و مماثل ہوئے۔ ہاں یہ عمومی جواز موجود ہے کہ اس میں سے کشادہ مقامات پر بیٹھ کرخرید و فروخت کی جائے، لیکن اسی صورت میں کہ اس کی بنا پر کسی بھی فرد کو تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ ہی کسی راہ گیر کے پریشانی کا باعث ہو۔ اس مسئلے میں ہر زمانے کے تمام باشندگان کا اتفاق ہے اور تمام لوگ بلاکسی انکار، اس کے قائل رہے ہیں۔ نیز یہ مباح چیز سے کسی کو ضرر پہنچائے بغیر فائدہ اٹھانے کی ایک شکل ہے، اس لیے ممنوع نہیں ہوگا، جیسے گزر گاہوں سے گزرنا ممنوع نہیں ہوتا۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية