موانع الإرث
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ ’’ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! کیا آپ کل مکہ میں اپنے گھر اتریں گے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہے؟ پھر فرمایا: کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا ‘‘۔  
عن أسامة بن زيد- رضي الله عنه- مرفوعاً: «قلت ُيا رسول الله، أتنزل غدا في دارك بمكة؟ قال: وهل ترك لنا عقيل من رِبَاعٍ؟ ثم قال: لا يَرِثُ الكافر المسلم، ولا المسلم الكافر

شرح الحديث :


فتحِ مکہ کے موقع پر جب آپ ﷺ آئے تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا آپ مکہ میں داخل ہو نے کے بعد صبح کو اپنے گھر میں جائیں گے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ کیا عقیل بن ابی طالب نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہے جس میں ہم رہیں؟۔ کیونکہ ابو طالب شرک کی حالت میں فوت ہوگیا تھا، اس نے اپنے پیچھے چار بیٹے چھوڑے۔طالب، عقیل، جعفر اور علی۔ جعفر اور علی تو ابوطالب کی وفات سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے، اس لیے وہ ان کے وارث نہیں بنے اور طالب اور عقیل اپنی قوم والوں کے دین پر قائم رہے، اس لیے وہ ابوطالب کے وارث بنے۔ پھر طالب غزوۂ بدر میں فوت ہوگئے، تو سارے گھر عقیل کے حصے میں آئے، اس نے وہ سب بیچ دیے۔ پھر اللہ کے نبی ﷺ نے مسلمان اور کافروں کے درمیان ایک عمومی حکم بیان کیا اور کہا کہ مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ وراثت کی بنیاد رشتہ داری قرابت اور نفع ہے اور جب دین مختلف ہوں تو یہ تعلق باقی نہیں رہتا، اس لیے کہ دین ایک مضبوط رشتہ اور مضبوط کڑا ہے۔ لہٰذا یہ تعلق باقی نہ رہا تو اس کے ساتھ ہر چیز مفقود ہوگئی حتیٰ کہ رشتہ داری بھی مفقود ہوگئی اور جانبین میں وراثت کا تعلق بھی ختم ہوگیا۔ اس لیے کہ دین کا تفاوت نسب اور رشتہ داری کے تعلق سے زیادہ قوی ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية