أحكام القرآن والمصاحف
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’نبی ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔‘‘  
عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يذكر الله على كل أحْيَانِه».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم:"نبی ﷺ اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔" یعنی ہر قسم کا ذکر کرتے تھے جیسے تسبیح، تہلیل، تکبیر اور تحمید۔، اور قرآن پڑھنا بھی اسی میں آتا ہے۔ کیونکہ قرآن اللہ کا ذکر ہے،بلکہ یہ ذکر کی سب سے افضل قسم ہے۔ ’’اپنے تمام اوقات میں‘‘ یعنی نبی ﷺ اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کرتے تھے چاہے آپ کو حدث اصغر یا حدث اکبر ہی کیوں نہ لاحق ہوتا،لیکن علماء نے جنابت کی حالت میں قرآن پڑھنے کو اللہ کے ذکر سے مستثنی کیا ہے۔ لھٰذا جنبی شخص کے لئے حالت جنابت میں کسی بھی صورت میں قرآن پڑھنا جائز نہین ہے، نہ تو دیکھ کر اور نہ ہی زبانی۔کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ: ’’نبی ﷺ ہمیں قرآن پڑھ کر سناتے تھے سوائے اس صورت کے کہ آپ ﷺ جنبی ہوتے۔‘‘ (مسند احمد و سنن اربعہ) وہ عورت جو حیض میں ہو اور وہ جو نفاس میں ہو اس کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ آیا ان کا بھی وہی حکم ہو گا جو جبنی کا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں زیادہ واضح بات یہ ہے کہ ان دونوں کے لئے زبانی قرآن پڑھنا جائز ہے کیونکہ ان کی مدت لمبی ہوتی ہے۔اور معاملہ ان کے ہاتھ میں ایسے نہیں ہوتا جیسے جنبی شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ہر حال میں قرآن پاک پڑھنے سے یہ حالتیں مستثنٰی ہیں:پیشاب، پاخانہ اور جماع کرتے ہوئے اور ایسی جگہوں پر قرآن پڑھنا جو اس کی عظمت کے شایان شان نہ ہوں جیسے غسل خانے، واش روم اور اسی طرح کے دیگر ناپاک مقامات۔ مجموع فتاوى الشيخ ابن باز(10/147) توضيح الأحكام(1/315) تسهيل الإلمام (1/201)  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية