نكاح الكفار
عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے نکاح کے ساتھ بھیج دیا۔  
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، رَدَّ ابنته زينب على أبي العاص بن الرَّبيع بنكاح جديد».

شرح الحديث :


نبی ﷺ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنھا کے قصہ سے متعلق اس حدیث میں یہ مسائل مستنبط ہوتے ہیں کہ آپ نے انہیں ان کے پہلے شوہر ربیع بن عاص رضی اللہ عنہ کے اسلام لے آنے کے بعد ان دونوں کے سابقہ نکاح کو ملحوظ رکھتےہوئے، نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ لوٹا دیا، جمہور اہل علم کے ہاں اسی حدیث کے مطابق عمل ہے کہ اگر عورت کی عدت کے ایام، شوہر کے اسلام لانے سے قبل ختم ہوجائیں اور پھر اس کے بعد وہ مسلمان ہو تو ازسر نو نکاح کرنا اور نیا مہر دینا ضروری ہے، تاہم یہ غیر ثابت شدہ ضعیف حدیث ہے۔ لجنہ دائمہ کے فتوی میں یہ وضاحت ہےکہ: 1۔اگر شوہر اور بیوی دونوں ہی کافر ہوں اور دونوں ایک ساتھ مسلمان ہوجائیں تو ان کا پہلا نکاح برقرار رہے گا؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں کفار، اپنی بیویوں کے ساتھ مسلمان ہوا کرتے تھےتو آپ ﷺ ان کے پہلے نکاح کو اپنے حال پر برقرار رکھتے۔ اگر شوہر کے اسلام لانے سے قبل بیوی کی عدت ختم ہوجائے تو دونوں کے درمیان نکاح کا پاکیزہ بندھن ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:"فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖوَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ"(سورہ الممتحنہ: 10)۔ترجمہ: لیکن اگر وه تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ وه ان کے لیے حلال ہیں اور جو خرچ ان کافروں کا ہوا ہو وه انہیں ادا کردو، ان عورتوں کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناه نہیں اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية