تفسير القرآن
شعبی سے روایت ہے کہ ایک منافق اور یہودی کے مابین جھگڑا ہو گیا۔ یہودی کہنے لگا کہ ہم محمد ﷺ کے پاس فیصلہ لے کر جاتے ہیں کیونکہ اسے معلوم تھا کہ آپ ﷺ رشوت نہیں لیتے اور منافق کہنے لگا کہ ہم کسی یہودی کے پاس مقدمہ لے کر جاتے ہیں کیونکہ اسے یہ علم تھا کہ وہ رشوت لے لیتے ہیں۔ چنانچہ دونوں کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ جہینہ قبیلے کے ایک کاہن کے پاس فیصلہ لے کر جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ}۔ (سورہ النساء: 60)۔ ترجمہ: ’’کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وه اپنے فیصلے غیر اللہ کے ہاں لے جانا چاہتے ہیں‘‘.  
عن الشعبي قال: كان بين رجل من المنافقين ورجل من اليهود خصومة فقال اليهودي: نتحاكم إلى محمد؛ لأنه عرف أنه لا يأخذ الرِشْوَةَ، وقال المنافق: نتحاكم إلى اليهود؛ لعلمه أنهم يأخذون الرِشْوَةَ، فاتفقا أن يأتيا كاهنا في جُهَيْنَةَ فيتحاكما إليه، فنَزلت: {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ...}.

شرح الحديث :


شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ {أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ} الآية۔ اس شخص کے طرز عمل کوبیان کرنے کے لیے نازل ہوئی جو ایمان کا جھوٹا دعوے دار تھا اور جو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی اور سے فیصلہ کرانا چاہتا تھا تاکہ مبنی بر انصاف فیصلے سے بچ سکے۔ اس کی وجہ سے وہ طاغوت کے پاس اپنا فیصلہ لے گیا اور اس کو کچھ پرواہ نہ ہوئی کہ اس کا یہ عمل ایمان کے منافی ہے۔ اس سے اس کے دعوائے ایمان کے جھوٹے پن کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ پس جو شخص اس طرح کا عمل کرے گا اس کا بھی یہی حکم ہو گا۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية