شروط الصلاة
جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھا کرتے، عصر کی نماز اس وقت ادا فرماتے جب کہ سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا، نماز مغرب وقت ہوتے ہی پڑھ لیتے اور عشا کی نماز کبھی جلدی اور کبھی دیر سے پڑھتے؛ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں، تو جلدی پڑھتے اور جب دیکھتے کہ لوگوں نے کچھ دیر کردی ہے، تو دیر سے پڑھتےاور صبح کی نماز کو آپ ﷺ اندھیرے میں پڑھایا کرتے تھے۔  
عن جابر بن عبد الله الأنصاري -رضي الله عنهما- قال: «كَانَ -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَة، والعَصرَ والشَّمسُ نَقِيَّة، والمَغرِب إِذَا وَجَبَت، والعِشَاء أَحيَانًا وأَحيَانًا: إِذَا رَآهُم اجتَمَعُوا عَجَّل، وَإِذَا رَآهُم أَبْطَئُوا أًخَّر، والصُّبحُ كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يُصَلِّيهَا بِغَلَس».

شرح الحديث :


اس حدیث میں نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی کے افضل وقت کا بیان ہے۔ نماز ِظہر کا وقت تب ہوتا ہے، جب سورج عین وسطِ آسمان سے کچھ ہٹ جائے۔ یہی زوال کا وقت ہوتا ہے۔ یہ ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت ہے۔ تاہم اگر گرمی اتنی زیادہ ہو کہ اس سے نمازی متاثر ہوتے ہوں، تو اس صورت میں نماز میں تاخیر کرنا افضل ہے، یہاں تک کہ فضا میں کچھ ٹھنڈک آ جائے جیسا کہ دیگر دلائل میں آیا ہے۔ عصر کی نماز اس وقت ادا کی جاتی ہے، جب سورج ابھی سفید اور صاف ہو اور بوقت غروب پیدا ہونے والی زردی کی اس میں آمیزش نہ ہو ئی ہو۔ اس کا وقت تب شروع ہوتا ہے، جب ہر شے کا سایہ، زوال کا سایہ نکالنے کےبعد اس شے کے مثل ہو جائے۔ مغرب کی نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے، جب سورج غروب ہو جائے۔ البتہ عشا کی نماز میں مقتدیوں کی حالت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ عشا کے ابتدائی وقت، یعنی شفق کی سرخی زائل ہو نے پر آ جائیں، تو وہ اس وقت نماز پڑھ لیں اور اگر اس وقت نہ آئیں، تو امام اسے رات کے تقریبا ابتدائی نصف حصے تک موخر کرے۔ اگر دشواری کا اندیشہ نہ ہوتا، تو یہی اس کا افضل وقت تھا۔ صبح کی نماز کا وقت تب ہوتا ہے جب روشنی کی اندھیرے کے ساتھ آمیزش شروع ہوتی ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية