العشرة بين الزوجين
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ’’ ہم نزول قرآن کے زمانہ میں عزل کیا کرتے تھے۔‘‘ سفیان کہتے ہیں کہ اگر یہ کوئی قابلِ ممانعت بات ہوتی تو قرآن ہمیں اس سے منع کر دیتا۔  
عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: "كنا نعزل والقرآن ينزل". قال سفيان: لو كان شيئا ينهى عنه؛ لنهانا عنه القرآن.

شرح الحديث :


جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عزل کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ انہیں اس سے منع نہیں فرمایا کرتے تھے۔ اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو آپ ﷺ انہیں ایسا نہ کرنے دیتے۔ گویا کہ ان سے کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ آپ لوگوں کے اس عمل کی خبر آپ ﷺ تک نہ پہنچی ہو؟ (اس وجہ سے آپ ﷺ نے اس سے منع نہ کیا ہو۔) اس پر انہوں نے کہا کہ: اگر نبی ﷺ تک اس بات کی خبر نہیں پہنچی تو اللہ تبارک و تعالی تو اسے جانتا تھا۔ قرآن بھی نازل ہو رہا تھا۔ اگر یہ کوئی ممنوع عمل ہوتا تو قرآن اس سے منع کر دیتا اور اللہ تعالی ہمیں اس عمل کو جاری نہ رکھنے دیتا۔ نصوص کے مابین باہم موافقت کا طریقہ کار: جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث عزل کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے تاہم ایسی احادیث بھی آئی ہیں جن سے عزل کے عدم جواز کا علم ہوتا ہے۔ مثلا صحیح مسلم میں جذامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھیں۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے عزل کے حکم کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو پوشیدہ طور پر زندہ گاڑ دینا ہے۔ ان (بظاہر متعارض) نصوص کے مابین مطابقت کیسے پیدا کی جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل تو یہی ہے کہ عزل کی اجازت ہے جیسا کہ جابر اور ابو سعید رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث میں آیا ہے۔جب کہ جذامہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب عزل سے مقصد بچوں سے احتراز ہو۔ اسی معنی پر آپ ﷺ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ ’’یہ تو پوشیدہ طورپر زندہ گاڑنا ہے‘‘۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ عزل کرنا مکروہ ہے نہ کہ حرام ۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية