ما يجوز للصائم
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفر میں روزہ رکھوں؟ - اور وہ بہت زیادہ روزے رکھتے تھے-، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو۔  
عن عائشة -رضي الله عنها- : "أن حَمْزَةَ بن عَمْرٍو الأَسْلَمِيَّ قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: أصوم في السفر؟ - وكان كثير الصيام- فقال: "إن شئتَ فصُم، وإن شئت فَأَفْطِرْ".

شرح الحديث :


ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بتا رہی ہیں کہ حمزہ بن عمرو الاسلمیّ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ کیا میں سفر میں روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ اگر چاہو تو روزہ رکھو اور اگر چاہو تو روزہ نہ رکھو۔ یہاں پر روزہ سے مراد فرض روزہ ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے۔'' اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا یہ سوال فرض روزوں کے بارے میں تھا۔ اس کی دلیل ابو داؤد کی روایت کردہ یہ حدیث ہے کہ۔ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں صاحبِ سواری ہوں، جسے میں استعمال میں لاتا ہوں، کبھی اس پر خود سفر کرتا ہوں،اور کبھی اسے کرایہ پر دیتا ہوں۔ اور بسا اوقت (دورانِ سفر) یہ مہینہ یعنی رمضان آجاتا ہے اور میں (روزہ رکھنے کی) طاقت رکھتا ہوں... الحدیث۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ سوال مطلق روزہ رکھنے کے بارے میں تھا، چاہے وہ واجب ہو یا نفل، کیوں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے: ''اور وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے تھے۔'' اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سفر میں روزه نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ جس نے رخصت کو لے لیا، اس نے درست کیا اور جس نے روزہ رکھا اس کے لئے یہ جائز ہے۔ اور اس کے روزہ کو واجب کا ادا کرنے والا سمجھا جائے گا۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية