ما يجب على الصائم
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب اِدھر (مشرق) سے رات پڑنا شروع ہو جائے اور اُدھر (مغرب) سے دن ڈوبنے لگے تو اس وقت روزہ دار افطار کر لے‘‘۔  
عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إذا أقبل الليل من هَهُنا، وأَدْبَرَالنهار من ههنا، فقد أفطر الصائم».

شرح الحديث :


روزے کا شرعی وقت طلوعِ فجر تا غروبِ آفتاب ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے اپنی امت کو آگاہ کیا کہ جب مشرق کی جانب سے رات چڑھ آئے اور مغرب کی طرف سورج غروب ہونے کے ساتھ دن رخصت ہو جائے (تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہو جاتا ہے)۔ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’جب رات ادھر سے چڑھ آئے اور دن ادھر سے رخصت ہو جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار افطار کر لے‘‘۔یعنی ایسا ہونے پر روزہ دار کے افطار کا وقت ہو جاتا ہے اور اس سے مزید تاخیر کرنا مناسب نہیں بلکہ اگر ایسا کیا گیا تو یہ برا سمجھا جائے گا۔ ( یہ حکم اس لیے ہے) تاکہ شارع کے حکم کی تعمیل اور فرماں برداری ہو، اور معلوم ہو سکے کہ کس وقت عبادت کرنی ہے اور کس وقت نہیں اور تاکہ نفس کو زندگی کی جائز لذتوں سے لطف اندوزی کی شکل میں اس کا حق مل سکے۔ آپ ﷺ کے فرمان" فقد أفطر الصائم " میں دو معانی کا احتمال ہے: الف : یا تو روزہ دار افطار کا وقت ہونے کے ساتھ ہی حکمی طور پرافطار کرنے والا ہو جائے گا اگرچہ وہ روزہ افطار کرنے والی کوئی شے نہ بھی کھائے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بعض احادیث میں جو افطار جلد کرنے کا حکم آیا ہے اس سے مراد حسی طور پر افطار کرنے کی ترغیب دینا ہو گا تاکہ اس کا عمل شرعی معنی کے موافق ہو جائے۔ ب : یا پھر مفہوم یہ ہو گا کہ اس پر افطار کرنے کا وقت ہو جاتا ہے۔اس معنی کے اعتبار سے اس میں جلدی افطار کرنے کی ترغیب ہے اور یہی معنی زیادہ بہتر ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ "فقد حلَّ الإفطار" (تو افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔)  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية