المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے اجازت مانگی اس وقت آپﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (آپﷺ کی بیویاں) اکٹھی تھیں، آپ ﷺسے زیادہ خرچ مانگ رہی تھیں، ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں جس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی (ان کی آواز کان میں پہنچی) تو سب کی سب کھڑی ہو کر پردے میں بھاگیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دے دی اور آپ ﷺ ہنس رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپ کو اللہ تعالی ہمیشہ ہنستا رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو ابھی میرے پاس بیٹھی تھیں (مجھ سے جھگڑے کر رہی تھیں)، تمہاری آواز سنتے ہی پردہ میں ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب کو آپ کا ڈر زیادہ ہو، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان عورتوں سے کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی ﷺ سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ تُند مزاج اور سخت آدمی ہو اور نبی ﷺ نرم ہیں، اس وقت رسول ﷺ نے فرمایا: قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے عمر! جب شیطان کسی راستہ سے چلتا ہوا تم سے ملتا ہے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کےگھر میں آنے کی اجازت مانگی، اور آپﷺ کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (آپﷺ کی بیویاں) اکٹھی تھیں بات چیت ہو رہی تھی، آپ ﷺسے زیادہ خرچ مانگ رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ جس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی ان کی آواز کان میں پہنچی تو سب کی سب کھڑی ہو کر پردے میں بھاگیں، چنانچہ رسول اللہﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو گھر میں آنے کی اجازت دے دی۔ جب عمر رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ ہنس رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اللہ تعالی آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے، یعنی آپ کو اللہ تعالی خوش و خرم رکھے، چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر ہنسی آئی جو ابھی عمر کے آنے سے پہلے میرے پاس بیٹھی تھیں، مجھ سے بلند آواز میں باتیں کر رہی تھیں، جیسے ہی عمر رضی اللہ عنہ آئے ڈر اور احترام کی وجہ سے ان سے پردے میں ہو گئیں، توعمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سب کو آپ کا ڈر اور احترام زیادہ ہو، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ان عورتوں سے کہا: اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی ﷺ سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں تم تُند مزاج اور سخت آدمی ہو بر خلاف رسول اللہ ﷺ کے کیونکہ وہ نرم ہیں، اس وقت رسول ﷺ نے قسم کھاکر فرمایا بے شک شیطان جب کسی راستہ سے چلتا ہوا تم سے ملتا ہے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔