العدة
عروہ بن زبیر نبی ﷺ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ( بھتیجی) عبدالرحمٰن کی بیٹی حفصہ کو جب کہ( وہ تین طہر گزار چکیں) اور تیسرا حیض شروع ہوا تو حکم دیا کہ وہ مکان بدل لیں۔ ابن شہاب کہتے ہیں عروہ رحمہ اللہ نے جب یہ روایت بیان کی تو عمرہ بنت عبدالرحمن نے (جو سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دوسری بھتیجی ہیں) عروہ کی تصدیق کی اور فرمایا کہ لوگوں نے (اس سلسلے میں) عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض بھی کیا، اور کہا: بے شک اللہ تبارک وتعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے: ”تین قروء“ [البقرة 2: 228] تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم نے سچ کہا، لیکن کیا تمہیں اَقراء کا (مطلب) معلوم ہے؟ یقینًا اَقراء سے مراد طہر ہیں۔  
عن عروة بن الزبير عن عائشة زوج النبي -صلى الله عليه وسلم- أنها انْتَقَلَتْ حفصةَ بنتَ عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق، حين دَخَلَتْ في الدَّمِ من الحيضة الثالثة. قال ابن شهاب: فذُكر ذلك لِعَمْرَةَ بنت عبد الرحمن. فقالت: صدَق عروة. وقد جادلها في ذلك ناس، وقالوا: إن الله -تبارك وتعالى- يقول في كتابه: {ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ} [البقرة 2: 228]. فقالت عائشة: صدقتم، وتدرون ما الأَقْرَاءُ؟. إنما الأَقْرَاءُ الأَطْهَارُ.

شرح الحديث :


اس اثر میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے سگے بھائی عبد الرحمان کی بیٹی حفصہ کو جنہیں ان کے شوہر منذر بن عوام نے طلاق دے دیا تھا، تیسرا حیض آنے کے بعد عدت کے گھر سے منتقل کردیا اور ایسا عدت پورا ہونے کی وجہ سے کیا، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ‘‘ یعنی ”طلاق والی عورتیں اپنےآپ کو تین قروء تک روکے رکھیں“ ــــــــ میں وارد لفظ ’قرْء‘ کے معنیٰ کے متعلق بعض صحابہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان نزاع تھا۔ صحابہ نے کہا قرء سے مراد حیض ہے۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کا جواب دیا کہ بیشک آپ لوگ قراءتِ قرآن میں تو درست اور صحیح ہیں مگر اس کی تفسیر میں خطا کر رہے ہیں کیوں کہ ’قرْء‘ کا مفہوم وہ طہر (پاکی) ہے جو دوحیض کے بعد حاصل ہوتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية