المولى
كلمة (المولى) في اللغة اسم مكان على وزن (مَفْعَل) أي محل الولاية...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں برص، پاگل پن، کوڑھ کی بیماری اور تمام بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اس حدیث میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ نبی ﷺ کچھ مخصوص امراض سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ خود ان سے پناہ مانگ رہے ہیں اس لیے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بہت خطرناک ہیں اور ان کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ نبی ﷺ نے خاص طور پر چند امراض سے پناہ مانگی اور عمومی طور پر کئی برے امراض سے سلامتی اور عافیت طلب کی۔ اس حدیث میں تخصیص بھی ہے اور اجمال بھی۔ اس کے ایک جزء میں تفصیل ہے اور ایک جز جامع کلمات پر مشتمل ہے جس کی وضاحت یہ ہے کہ: نبی ﷺ نے پناہ مانگتے ہوئے کہتے " اللهم إني أعوذ بك من البرص" ’برص‘ سے مراد وہ سفیدی ہے جو بدن میں ظاہر ہوتی ہے اور اس سے لوگ انسان سے گھن کھانا لگتے ہیں جس کی وجہ سے انسان بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ جاتا ہے جو بسا اوقات ڈیپریشن (ذہنی دباؤ) کا سبب بن جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ " والجنون"۔ اس کا معنی ہے عقل کا زائل ہو جانا۔ عقل ہی کی وجہ سے انسان مکلف ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اپنے رب کی عبادت کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ اشیاء اور اس کے کلام عظیم میں غور و فکر کرتا ہے۔ عقل کا ختم ہو جانا گویا انسان ہی کا ختم ہوجانا ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا: تین قسم کے لوگ مرفوعُ القلم ہیں۔ ان تیں قسم کے افراد میں سے آپ ﷺ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو پاگل ہو چکا ہو تاوقتیکہ اسے دوبارہ سمجھ بوجھ حاصل ہو جائے۔ " الجذام "۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے اعضاء جسم بوسیدہ ہو جاتے ہیں اور کٹ کر گرنے لگتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔ یہ ایک متعدی مرض ہے۔ اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے کہ کوڑھی سے ایسے دور بھاگو جیسے تم شیر سے دور بھاگتے ہو۔ " وسيء الأسقام "۔ یعنی بُرے امراض سے۔ اس سے مراد وہ جسمانی آفات ہیں جن کی وجہ سے انسان لوگوں کے مابین حقیر ہو کر رہ جاتا ہے اور لوگ طبعی طور پر اس سے دور رہنا شروع کر دیتے ہیں جیسے فالج، اندھا پن اور سرطان وغیرہ کیونکہ یہ بہت سخت قسم کے امراض ہیں جن کے علاج میں کافی پیسے خرچ ہوتے ہیں نیز اُن کا سامنا کرنے کے لیے قوی ترین صبر ہونا چاہیے۔ انہیں صرف وہی برداشت کر پاتا ہے جسے اللہ تعالی صبر دے دے اور اس کا دل باندھ دے۔ اس دعا سے اُس دین کی عظمت عیاں ہوتی ہے جو مسلمان کے جسم اور دین دونوں ہی کا لحاظ رکھتا ہے۔