المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے کہا گیا کہ تمھارے نبی تمھیں ہر چیز سکھاتے ہیں، حتیٰ کہ قضائے حاجت کا طریقہ بھی سکھاتے ہیں۔ سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے روکا ہے، اسی طرح داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے، تین سے کم پتھروں کے استعمال کرنے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے بھی روکا ہے۔
حدیث کا مفہوم: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: "قد عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُم ﷺ كل شيء حتى الخِرَاءَةَ" یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو بیت الخلا میں داخل ہونے سے لے کر باہر نکلنے تک، قضاے حاجت کے آداب سکھلاتے ہیں۔ اسی میں سے قضاے حاجت کے وقت قبلے کی طرف رُخ اور پیٹھ کرنا اور داہنے ہاتھ، گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کرنا ہے۔ "قال: أجَل: لقد نَهَانا أن نَستقبل القِبْلَة لِغَائِطٍ، أو بَول" یعنی ہاں! ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بول و براز کے وقت قبلہ رُخ ہونے سے منع فرمایا کہ قضاے حاجت کے وقت قبلے کی طرف رُخ بھی نہیں کرنا چاہیے اور پیٹھ بھی۔ اس لیے کہ یہ نماز وغیرہ میں مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یہ سب سے محترم جہت ہے، اس کی عزت اور تکریم ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّه) [الحج: 30]. "أو أن نَسْتَنْجِيَ باليَمِين" یعنی داہنے ہاتھ سے استنجا کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس لیے کہ داہنا ہاتھ پاکیزہ، محترم اور اچھے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ جن کاموں میں ذلت اور توہین کا پہلو ہوتا ہے، جیسے پاخانہ صاف کرنا تو یہ بائیں ہاتھ کے کام ہیں۔ دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: "ولا يَتَمَسح من الخلاء بيمنيه“ (اور نہ دائیں ہاتھ سے استنجا کرے)۔ "أو أن نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ من ثلاثة أحْجَار" یعنی تین سے کم پتھر استنجا میں استعمال کرنا بھی ممنوع ہے، اگرچہ صفائی اس سے کم سے بھی حاصل ہو جائے۔ اس لیے کہ اکثر تین سے کم پتھروں سے پاکی حاصل نہیں ہوتی، تین پتھروں کی قید اس وقت ہے جب پتھروں کے بعد پانی استعمال نہ کیا جارہا ہو۔ اگر پتھروں کے بعد پانی کا استعمال بھی ہو، تو تین پتھروں سے کم پر بھی اکتفا کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اس وقت یہاں پتھروں سے مقصود نجاست کا کم کرنا ہے، مکمل طہارت حاصل کرنا نہیں۔ "أوأن نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ"۔ گوبر سے استنجا کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس لیے کہ یہ جنات کے جانوروں کی غذا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ جنات کا ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے کھانے کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارے لیے ہر وہ ہڈی ہے، جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور وہ تمھارے ہاتھوں میں آجائے، اس پر پہلے سے زیادہ گوشت آجاتا ہے اور ہر مینگنی یا لید تمھارے جانوروں کا چارہ ہے"۔ "أَو بِعَظْمٍ" ہڈیوں سے استنجا کرنا بھی شریعت میں ممنوع ہے۔ اس لیے کہ یہ جنات کی خوراک ہے۔ جیسے کہ گزشتہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان سے استنجا نہ کیا کرو؛ کیوںکہ یہ تمھارے جن بھائیوں کی خوراک ہے"۔ اس طرح، حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ ہڈیوں سے استنجا نہ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ انھیں گندہ نہ کیا جاۓ؛تاکہ انھیں بطور غذا استعمال کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔ کیوں کہ جب انھیں نجاست صاف کرنے کے لیے استعمال کیا جاۓ گا، ان کی غذا خراب ہو جاۓ گی۔