الغفور
كلمة (غفور) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعول) نحو: شَكور، رؤوف،...
نکاحِ شِغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا کسی اور کی ، جس کا وہ ولی ہو، دوسرے شخص سے اس شرط پرشادی کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا جس کا وہ ولی ہو، اُس کی شادی اُس سے کرے؛ خواہ اس میں مہر ہو یا نہ ہو۔
’نکاحِ شِغار‘ فاسد نکاح کی ایک قسم ہے، جس کا زمانۂ جاہلیت میں رواج تھا۔ نکاح شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی زیر ولایت عورت خواہ وہ اس کی بیٹی ہو، بہن ہو یا ماں وغیرہ ہو، کی شادی دوسرے مرد سے اس شرط پر کرے کہ وہ شخص بھی اپنی زیر ولایت عورت خواہ وہ اس کی بیٹی ہو، بہن ہو یا ماں وغیرہ ہو، کی شادی اس کے ساتھ کرے گا۔ خواہ مہر کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے۔ ایسا نکاح ’نکاحِ شِغار‘ ہی ہوگا۔ ’شِغار‘ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ’شغور‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خالی ہونے کے ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ امانت داری وانصاف سے خالی ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شِغار کا ’شغْرِ کلب‘کی مناسبت سے نام پڑا ہے، جس کے معنی ہوتے ہیں ’پیشاب کرتے وقت کتے کا پیر اٹھانا، ایسا اس فعل کی قباحت کی وجہ سے ہے، اس لیے عورت کے بدلے عورت لینا ایک قبیح فعل ہے۔ اس نکاح کے نقصانات میں سے کچھ یہ ہیں: 1-اس سے عورتوں کو اولیائے امور کے فائدے پر قربان کرکے ایسے مردوں سے شادی کرنے پر انھیں مجبور کرنا لازم آتا ہے، جن میں ان کی دل چسپی نہیں ہوتی۔ 2- یہ امانت داری کے برخلاف ہے، اس لیے کہ امانت کا تقاضا یہ ہے کہ عورت کے نکاح میں کفؤ کا خیال رکھا جائے، لیکن اِس صورت میں ولی اپنی مصلحت کو مدّ نظر رکھتا ہے نہ کہ عورتوں کی مصلحت کو۔ 3- یہ شادی کے بعد میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے کا باعث ہوتا ہے، جو کہ شریعت کی مخالفت کرنے والوں کی دنیوی سزا بھی ہے۔