الحق
كلمة (الحَقِّ) في اللغة تعني: الشيءَ الموجود حقيقةً.و(الحَقُّ)...
عیسائیوں کا عقیدہ کہ اللہ تین خداؤں یعنی باپ، بیٹے اور روح القدس (اقانیمِ ثلاثہ) میں سے تیسرا ہے۔
نصرانیوں کے نزدیک التثلیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ ایک جوہر ہے جو تین اقنوم (اشخاص) پر مشتمل ہے یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اسے وہ اپنے زعم میں تین میں ایک اور ایک میں تین کا نام دیتے ہیں۔ باپ سے ان کی مراد وجود ہے، جب کہ روح سے زندگی اور بیٹے سے مسیح ہے۔ يہ لوگ اس عقیدہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تثلیث کی تعلیم میں درج ذیل امور شامل ہیں: 1۔ اللہ کی وحدانیت۔ 2۔ باپ، بيٹے اور روح القدس كی الوہیت۔ 3۔ باپ، بیٹا اور روح القدس اقانیم ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے ازل سے لے کر ابد تک جدا ہے۔ 4۔ جوہر کے اعتبار سے یہ ایک ہیں اور قدرت و بزرگی میں برابر ہیں۔ ان کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام معبود ہیں کیونکہ اللہ ان کے ہاتھ پر خوارق عادت امور جاری کرتا تھا۔ تثلیث کے عقیدے کو 325ء میں نیقیہ کونسل نے منظور کیا تھا۔ ایسا دراصل نئے افلاطونیت سے متاثر ہوکر کیا گیا تھا جس کے اکثر افکار مشرقی فلسفے سے ماخوذ تھے۔ افلوطين (متوفی: 270ء) کا عیسائیت کے عقائد پر نمایاں اثر تھا۔
التَّثْلِيثُ: کسی شے کا عدد کے لحاظ سے تین ہونا۔ اگر آپ قوم کے افراد میں تیسرے فرد ہوں تو کہا جاتا ہے: ثَلَثْتُ القَوْمَ، أَثْلِثُهُم۔