السلام
كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...
تعظیم وغیرہ کی وجہ سے نفس میں پیدا ہونے والی ایک تبدیلی جو ملامت یا مذمت سے بچنے کے لیے اسے کسی شے کو کرنے یا اسے چھوڑنے سے روکتی ہے۔
حیا: یہ ایک عظیم خلق اور عمدہ صفت ہے جو انسان کو اچھا کام کرنے اور برے اقوال و افعال اور اخلاق سے بچنے پر ابھارتی ہے اور دوسرے کے حق میں کوتاہی کرنے سے روکتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: نفسیاتی یا فطری حیا: اس سے مراد وہ حیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام نفوس میں پیدا کیا ہے۔ جیسے ستر کھولنے اور لوگوں کی موجودگی میں جماع کرنے سے حیا کرنا وغیرہ۔ دوسری قسم: ایمانی یا کسبی حیا: اس سے مراد وہ حیا ہے جو مومن کو اللہ کے خوف کی وجہ سے گناہوں کا ارتکاب کرنے، یا نیکیوں کو چھوڑنے سے روکتی ہے۔ علما نے حیا کو تین قسموں میں بھی تقسیم کیا ہے: 1- اللہ سے حیا: یہ اس کے احکام کی بجاآوری اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کے ذریعہ ہوتی ہے۔ 2- انسان کی خود اپنے آپ سے حیا: اس کی شکل یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی باعفت اور عالی ہمت رہے اور اپنے آپ کو (گناہوں سے) بچائے۔ 3- اللہ اور خود اپنے نفس کے علاوہ سے حیا: اس سے مراد بقیہ ساری مخلوقات سے حیا کرنا ہے، بایں طور کہ انھیں تکلیف پہنچانے سے باز رہنا اور ان کے سامنے کھلم کھلا برائی کا ارتکاب نہ کرنا۔ حیا اگر عزت و احترام یا اکرام کے سبب ہو اور اس کی وجہ سے کسی شرعی امر کو ترک نہ کیا جائے تو ایسی حیا قابلِ تعریف ہے۔ لیکن اگر اس کے ساتھ کسی شرعی امر کو چھوڑ دیا جاتا ہے، جیسے علم حاصل کرنے کو چھوڑ دینا، یا برائی سے منع نہ کرنا؛ تو یہ دراصل قبیح و قابلِ مذمت خجالت (شرمندگی) ہے، اگرچہ کچھ لوگ اسے حیا کا نام دیں۔ کیوں کہ حیا ساری کی ساری خیر ہوتی ہے۔
حیاء: شرم، ’حیاء‘ کی ضد ’الوَقاحَةُ‘ (وقاحت و بے حیائی) اور ’الجُرْأَةُ‘ (ڈھٹائی) ہیں۔ ’حیاء‘ کا لفظ دراصل ’حَيَاة‘ سے ماخوذ ہے جو کہ ’موت‘ کی ضد ہے۔