القدير
كلمة (القدير) في اللغة صيغة مبالغة من القدرة، أو من التقدير،...
ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر وہ نیک ہے تو ممکن ہے کہ وہ نیکی میں اور زیادہ ہو اور اگر برا ہے تو ممکن ہے اس سے توبہ کر لے۔ (یہ الفاظ صحیح بخاری کی روایت کے ہیں)۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ - رضی اللہ عنہ - سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی موت کی خواہش نہ کرے اور اس کے خود آنے سے پہلے اس کے آنے کی دعا نہ کرے۔ کیوں کہ جب وہ مر جائے گا تو اس کا عمل منقطع ہوجائے گا جب کہ مومن کی عمر اس کی نیکیوں میں اضافہ ہی کرتی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے"۔ یہاں ممانعت حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ کیوں کہ موت کی آرزو کرنے میں اللہ کی قضاء پر عدمِ رضا کا پہلو ہوتا ہے جب کہ مومن پر فرض ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرے۔جب وہ کسی مصیبت پر صبر کرتا ہے تو اسے دو اہم باتیں حاصل ہوتی ہیں: اول: گناہ معاف ہوتے ہیں۔ انسان کو جب بھی کوئی دکھ، غم، تکلیف اور کوئی بھی ایسی شے پہنچتی ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کےگناہ معاف کر دیتا ہے حتی کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ بھی گناہ کا کفارہ بنتا ہے۔ دوم: اگر اسے اس بات کی توفیق حاصل ہو جائے کہ وہ اس پر اللہ سے اجر کا امید وار ہو اور اللہ کی خوشنودی کے لیے صبر کرے تو اسے ثواب ملتا ہے۔ جب کہ موت کی تمنا کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر صابر اور اس پر خوش نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ اگر آدمی نیک لوگوں میں سے ہو گا تو زندگی کے باقی رہنے کی وجہ سے اس کے نیک اعمال میں اضافہ ہوگا۔ مومن جب بقید حیات رہتا ہے، چاہے تکلیف اور مصیبت میں ہی مبتلا ہو، اس کی نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں۔ اگر وہ برا آدمی ہے اور اس نے کوئی برا عمل کیا ہوا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے یعنی اللہ سے اس کی خوشنودی مانگ لے اور اس سے معذرت کر لے اور پھر اس کی موت آئے تو وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر چکا ہو۔ چنانچہ موت کی آرزو نہ کرو کیوں کہ کوئی بھی حالت ہمیشہ باقی نہیں رہتی۔ پس چاہیے کہ انسان صبر کرے اور اس پر اجر کا طلب گار ہو۔ یہ محال ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت رہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ موت کی تمنا اور دعا کرنے کی ممانعت میں یہ مفہوم ہے کہ موت کی وجہ سے عمل منقطع ہو جاتا ہے۔ زندگی کی وجہ سے عمل ہوتا ہے اور عمل ہی سے ثواب میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ اگر کوئی عمل نہ بھی ہو تو تب بھی وحدانیت کے اقرار کا جاری رہنا سب سے افضل عمل ہے۔ یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ شخص زندہ رہے تو العیاذ باللہ ایمان ہی سے پھر جائے کیوں کہ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے۔ جب ایمان کی تازگی دلوں کے ساتھ مل جاتی ہے تو پھر کوئی اسے ناپسند نہیں کرتا۔ اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو شاذ و نادر ہو گا۔ اللہ کے ازلی علم میں جس کا خاتمہ برا لکھا گیا ہے اس کا برا خاتمہ ہو کر ہی رہے گا چاہے اس کی عمر لمبی ہو یا مختصر۔ چنانچہ اس کے لیے موت کو جلدی طلب کرنے میں کوئی اچھائی نہ رہے۔ اس حدیث میں اشارۃً مومن كے لیے اس کے نیک کاموں پر اس کے لیے خوشخبری ہے جب کہ بدکار کو اس کے برے عمل سے ڈرایا گیا ہے۔ گویا کہ آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ نیک شخص کو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے اپنے نیک اعمال میں جُٹا رہنا چاہیے اور ان میں اور اضافہ کرنا چاہیے اور جو برا شخص ہو اسے بھی موت کی آرزو نہیں کرنی چاہیے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ برائی سے باز آجائے تاکہ کہیں برائی کرتے کرتے ہی اس کی موت نہ آ جائے۔چنانچہ ایسا شخص خطرے میں ہوتا ہے۔