البحث

عبارات مقترحة:

النصير

كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...

المجيد

كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...

الطيب

كلمة الطيب في اللغة صيغة مبالغة من الطيب الذي هو عكس الخبث، واسم...

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما۔ اسے چاہیے کہ یقین کے ساتھ سوال کرے، اس لئے کہ اللہ کو کوئی مجبور کرنے والا نھیں ہے۔‘‘ مسلم کی روایت میں ہے کہ: ’’اور رغبت کا خوب اظہار کرے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز دینا مشکل نہیں ہے۔‘‘

شرح الحديث :

چونکہ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، اور اللہ تعالیٰ غنی اور تعریفوں والا ہے، جو چاہے کرتا ہے، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کو اس کی مشیّت پر موقوف کرنے سے منع فرمایا ہے اور اسے یقین کے ساتھ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ سے کسی چیز کی طلب کو اس کی مشیّت پر موقوف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخلوق کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہے یا کوئی چیز اسے ان کے پورا کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ جب کہ یہ درست نہیں۔ اسی طرح یہ بندے کے مانگنے میں سردمہری اور اپنے رب سے بے نیاز ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ حالانکہ بندہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ اس محتاجگی کے بھی منافی ہے جو دعاء کی عبادت کی روح ہے۔ مزید یہ کہ انتخاب اور چننا اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں، اس لئے کہ اسے کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے کہ اسے انتخاب کا حق دیا جائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگنے والے کو دعا میں اصرار کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ جو چاہے اللہ تعالیٰ سے خیر مانگے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز دینا مشکل نہیں اور نہ ہی اس پر کسی سائل کی ضرورت کو پورا کرنا گراں ہے، کیوںکہ وہ دنیا و آخرت کا مالک ہے، ان میں مطلق تصرف کرنے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية