الكريم
كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےمرفوعاً روایت ہے: ’’پل صراط کو جہنم کے اوپر رکھا جائےگا۔ جس پر سعدان کے خاردار پودے کی طرح کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس کے اوپر سے گزارا جائے گا تو کچھ لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، کچھ زخمی ہو کر بچ نکلیں گے، کچھ ان سے الجھ کر جہنم میں گرپڑیں گے۔ جب اللہ تعالی اپنے بندوں کے مابین فیصلے سے فارغ ہو جائے گا تو مسلمانوں کو بہت سے ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے تھے اور وہ انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ تو وہ کہيں گے: اے ہمارے رب! تیرے کچھ بندے جو دنیا میں ہمارے ساتھ ہوتے تھے اور جو ہماری طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتےاور جہاد کرتے تھے، وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور ان میں سے جتنے لوگ جہنم میں ملیں، انہیں اس میں سے نکال لو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ انہیں اس حالت ميں پائيں گے کہ جہنم کی آگ نے انہيں ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، کسی کو قدموں تک، کسی کو نصف پنڈلی تک، کسی کو گھٹنوں تک، کسی کو چھاتیوں تک، کسی کو تہبند تک اور کسی کو گردنوں تک، لیکن چہروں پر اس کی لپٹ نہیں پہنچی ہوگی۔ وہ انہیں دوزخ میں سے نکال لیں گے اور پھر انہیں آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم! آب حیات کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جنتیوں کا غسل ہے۔ پھر وہ ایسے نکلیں گے جیسے کھیتی نکلتی ہے۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے ساتھ آئے کوڑے پر خود رو گھاس اگ آتی ہے۔ پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کی شفاعت کریں گے جو اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہيں جہنم سے نکلوا لیں گے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اللہ اہل جہنم پر اپنی خصوصی رحمت فرمائے گا اور اس ميں کوئی ايک بندہ بھی ایسا نہيں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا مگر اسے اس سے باہر نکال لے گا۔‘‘
قیامت کےدن اللہ عزوجل پل صراط کو جہنم کے وسطی حصہ پر رکھ دے گا۔ پل پر سخت کانٹے ہوں گے۔ پھر لوگوں کو اس پر سے گزرنے کا حکم دیا جائے گا۔ ان میں سے کچھ تو نجات پا جائیں گے اور صحیح سلامت گزر جائیں گے، آگ ان کو نہیں چھوئے گی۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو زخمی تو ہوں گے تاہم بحفاظت چھٹکارا پا جائیں گے۔ اور بعض جہنم کے اندر جا گریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا اور جنتیوں کو جنت اور دوزخیوں کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا تو جنتی مومنوں کو کچھ ایسے لوگ نہیں ملیں گے جو دنیا میں ان کے ساتھ تھے اور انہی کی طرح نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے، روزے رکھتے، حج کرتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے تھے۔ تووہ لوگ اللہ عزوجل سے کہیں گے: ہمیں یہ لوگ اپنے ساتھ جنت میں دکھائی نہیں دے رہےحالانکہ وہ دنیا میں ہمارے ساتھ نماز پڑھتے، زکوۃ دیتے ، روزے رکھتے، حج کرتے اور جہاد کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا: جہنم کی طرف جاؤ اور اگر ان میں سے کوئی تمھیںجہنم میں ملے، تو اسے اس میں سے نکال لو۔ چنانچہ (جب وہ وہاں جائیں گے تو) انہیں اس حال میں پائیں گے کہ انہیں جہنم کی آگ نے ان کے اعمال کے بقدر اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کچھ کے قدموں تک آگ آ رہی ہو گی، کچھ کی پنڈلیوں کے نصف تک، کچھ کے گھٹنوں تک، کچھ کے درمیان تک، کچھ کے پستانوں تک اور کچھ کی گردن تک آگ پہنچی ہو گی۔ تاہم آگ ان کے چہروں تک نہ آئی ہو گی۔ وہ ان کے بارے میں شفاعت کریں گے تو ان کو جہنم سے نکال کر آب حیات میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ ایسا پانی ہے جو اپنے اندر غوطہ لگانے والے کو زندہ کردیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے سیلاب کے بہاو کی جگہ پر بیج اگ آتا ہے ہے۔ پھر انبیاء کرام ہر اس شخص کے بارے میں شفاعت کر یں گے جو اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ انہیں جہنم سے نکلوا لیں گے۔ پھر اللہ جہنم والوں پر رحمت وشفقت کرے گا اور اس میں سے کسی بھی ایسے شخص کو نکالے بغیر نہیں چھوڑے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".