ذم المعاصي
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں؟ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اے اللہ کے رسول! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا“۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا :"آگاہ ہو جاؤ! جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا"۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسلسل دہراتے رہے، حتی کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کہ کاش! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجائیں۔  
عن أبي بَكْرَةَ- رضي الله عنه - عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «أَلا أُنَبِّئُكم بِأَكْبَرِ الْكَبَائِر؟»- ثَلاثا- قُلْنَا: بَلى يا رسول الله، قَالَ: «الإِشْرَاكُ بِالله وَعُقُوقُ الوالدين، وكان مُتَّكِئاً فَجَلس، وَقَال: ألا وَقَوْلُ الزور، وَشهَادَةُ الزُّور»، فَما زال يُكَرِّرُها حتى قُلنَا: لَيْتَه سَكَت.

شرح الحديث :


نبی کریم ﷺ نے (استفساری انداز میں) اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کی بابت خبر نہ دوں؟ پھر آپ ﷺ نے ان تین کبیرہ گناہوں کا ذکر فرمایا؛ ایک یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، جو در حقیقت اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے مقام و مرتبے کی پامالی اور اس کے حق کو غیر مستحق، عاجز و بے بس مخلوق کے حوالے کرنا ہے۔ دوسرا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ والدین کی نافرمانی کی جائے، جو انتہائی قبیح گناہ ہے؛ کیوں کہ اس میں اپنے قریب ترین رشتے دار کے احسان کا بدترین بدلے ہے۔ تیسرا کبیرہ گناہ جھوٹی گواہی دینا ہے، جس میں ہر وہ دھوکہ بازی و جھوٹ شامل ہے، جس کے ذریعے کسی مقدمے میں پھنسے ہوئے شخص کے مال کو ہڑپ لینے یا اس کی عزت و آبرو پر دست درازی کرنے یا اس طرح کی دیگر حق تلفیاں مقصود ہوتی ہیں۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية