حد السرقة
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (کی چوری) پر ہاتھ کاٹا تھا، جس کی قیمت تین درہم تھی۔ بعض روایتوں میں"قيمته" کی جگہ"ثمنه " آیا ہے۔  
عبدُ الله بنُ عمر رضي اللهُ عنهما «أَنَّ النَّبِي -صلى الله عليه وسلم- قَطَع فِي مِجَنٍّ قِيمَتُهُ -وَفِي لَفْظٍ: ثَمَنُهُ- ثَلاثَةُ دَرَاهِمَ».

شرح الحديث :


اللہ عز و جل نے لوگوں کی جان، آبرو اور مال کو ان تمام ذرائع سے تحفظ فراہم کیا ہے، جو فسادی اور سرکش افراد کو(ان کی شر انگیزیوں سے) باز رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس چور کی سزا جو مخفی طریقے سے مال کو اس کے محفوظ مقام سے لے اڑتا ہے، اس ہاتھ کو کاٹنا رکھی ہے جو اس چرائے گئے مال کو اٹھاتا ہے؛ تا کہ ہاتھ کاٹنا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے اور آئندہ وہ اور دیگر لوگ (حصول مال کے) ان گھٹیا طریقوں سے باز رہیں اور شرعی اور باعزت طریقوں سے مال کمائیں، جس کے نتیجے میں کام کاج کو فروغ ملے، منافع کا حصول ہو، یہ عالم تعمیر و ترقی کی جانب گامزن ہوجائے اور لوگ باعزت زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تقاضے کے تحت، مال کی اس اقل ترین مقدار کا تعین فرما دیا، جس کے چرانے پر ہاتھ کو کاٹا جائے گا، جو کہ سونے سے بنے دینار کے ایک چوتھائی کے مساوی ہے، تا کہ مال و جان محفوظ رہیں، امن کا دور دورہ ہو، دل پر سکون ہوں اور حصول رزق اور سرمایہ کاری کی غرض سے لوگ اپنا مال (بلا خوف و خطر) لگائیں۔ اور ایک چوتھائی دینار ایک گرام اور ربع کے چوتھائی گرام کے مساوی ہوتا ہے؛ کیونکہ ایک دینار، سوا چار (4.25) گرام کا ہوتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية