أحكام المسجد الحرام والمسجد النبوي وبيت المقدس
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا:”فتح مکہ کے بعد ہجرت (مکہ سے مدینہ کے لیے) باقی نہیں رہی۔ البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اس لیے جب تمھیں جہاد کے لیے بلایا جائے، تو فوراً نکل کھڑے ہو۔“ فتح مکہ کے دن آپ ﷺ نے فرمایا: جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اسی دن سے اس نے اس شہر کو حرمت والا بنایا ہے۔ چنانچہ اللہ کی دی گئی حرمت کی وجہ سے وہ قیامت کے دن تک کے لیے حرمت والا ہے۔ مجھ سے پہلے اس میں کسی کے لیے قتال کرنا حلال نہیں تھا۔ میرے لیے صرف دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال ہوا۔ اب یہ دوبارہ اللہ کی دی گئی۔ اللہ کی حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک کے لیے حرمت والا ہو گیا ہے۔ نہ تو اس (میں موجود کسی درخت) کا کانٹا اکھاڑا جائے گا، نہ اس کے شکار کو بھگایا جائے گا اور نہ ہی اس میں گری پڑی چیز کو اٹھایا جاۓ گا، سوائے اس شخص کے جو اعلان کرتے ہوئے (مالک تک پہنچانے کے ارادے سے) اسے اٹھائے اور نہ ہی اس کا گھاس کاٹا جائے گا۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! سوائے اذخر گھاس کے۔ یہ لوگوں کی بھٹیوں اور ان کے گھروں کی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ سوائے اذخر گھاس کے۔  
عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يوم فتح مكة: «لا هجرة بعد الفتح، ولكن جهاد ونية. وإذا اسْتُنْفِرْتُم فَانْفِرُوا. وقال يوم فتح مكة: «إن هذا البَلد حَرَّمَهُ الله يوم خلق الله السموات والأرض، فهو حَرَامٌ بحُرْمَةِ الله إلَى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لِأَحَدٍ قَبْلِي، ولم يَحِلَّ لي إلا ساعة من نهار، حرام بِحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلاَ يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلاَ يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إلا من عَرَّفَهَا، ولاَ يُخْتَلَى خَلاَهُ». فقال العباس: يا رسول الله، إلا الإِذْخِرَ؛ فإنه لِقَيْنِهِمْ وبيوتهم؟ فقال: «إلا الإِذْخِرَ».

شرح الحديث :


عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لا ھجرۃ ۔ یعنی مکے سے مدینے کی طرف اب ہجرت فرض نہیں؛ کیوں کہ اب یہ اسلامی علاقہ بن چکا ہے۔ تاہم جہاد کی فرضیت ہنوز باقی ہے۔ آپ ﷺ نے حکم دیا کہ جس سے جہاد پر جانے کے لیے کہا جائے، وہ اللہ، اس کے رسول اور حکمران کی اطاعت میں جہاد کے لیے نکل کھڑا ہو۔ پھر آپ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی حرمت بیان کی اور فرمایا کہ جب سے اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی ہے، تب سے یہ حرمت والا ہے اور یہ کہ نبی ﷺ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ ہی آپ ﷺ کے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آپ ﷺ کے لیے صرف دن کے کچھ وقت کے لیے حلال ہوا تھا، بعدازاں اس کی حرمت لوٹ آئی۔ آپ ﷺ نے مکے کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ تو حرم میں موجود کوئی کانٹا اکھاڑا جائے گا، نہ اس میں موجود شکار کے جانوروں کو بھگایا جائے گا اور نہ ہی اس میں کسی گری پڑی چیز کو اٹھانا کسی کے لئے جائز ہے؛ سوائے اس شخص کے جو لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے اسے اٹھائے (تا کہ اسے اس کے مالک تک پہنچا سکے) اور نہ ہی اس میں موجود چارہ اور سبز گھاس وغیرہ کاٹی جائے۔ تاہم اہل مکہ کی مصلحت کے پیش نظر آپ ﷺ نے اس حکم سے اذخر گھاس کو مستثنی کر دیا۔ کیوں کہ لوہار اپنے کام کی خاطر آگ جلانے کے لیے اس کا استعمال کرتے تھے۔ تيسير العلام (ص384) تنبيه الأفهام(ج3/ 515) تأسيس الأحكام 3/351  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية