البحث

عبارات مقترحة:

الرحيم

كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...

العفو

كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...

الحكيم

اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...

ابوجری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کا نام جابر بن سلیم ہے کہتے ہیں کہ (جب میں مدینہ آیا تو) میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو مرتبہ یہ کہا ’’علیک السلام‘‘ کہ آپ پر سلام ہو۔ اے اللہ کے رسول ! رسول کریم نے یہ سن کر کہا کہ ’’علیک السلام‘‘ نہ کہو، یہ مُردوں کا سلام ہے اس کے بجائے ’’السلام علیک‘‘ کہو! اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف و مصیبت پہنچے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہاری تکلیف و مصیبت کو دور کرے، اگر تمہیں قحط سالی اپنی لپیٹ میں لے لے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہارے لیے سبزہ (غلہ وغیرہ) اگادے اور اگر تم کسی بے آب و گیاہ زمین میں، یا کسی ایسے جنگل میں ہو جو آبادی سے دور ہو اور تم اپنی سواری گم کر بیٹھو اور پھر تم اسے پکارو تو وہ تمہاری سواری تمہارے پاس واپس بھیج دے۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرما دیجیے! آپ نے فرمایا کسی کو برا بھلا نہ کہو۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی کو برابھلا نہیں کہا نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو (یعنی کسی انسان کو کیا برا کہنا، حیوانات کو بھی برا نہ کہا جیسا کہ عام لوگوں کی عادت ہوتی ہے)۔ کسی بھی نیکی کو حقیر نہ جانو اور جب تم اپنے کسی بھائی سے ملاقات کرو تو خندہ پیشانی اختیار کرو (یعنی جب تم کسی سے ملو، تو اس سے تواضع اور خوش کلامی سے پیش آؤ تاکہ تمہارے اس حسن خلق کی وجہ سے اس کا دل خوش ہو) کیونکہ یہ بھی ایک نیکی ہے اور تم اپنی ازار (یعنی پاجامہ، لنگی وغیرہ) کو نصف پنڈلی تک اونچی رکھو، اگر اتنی اونچی رکھنا تمہیں پسند نہ ہو تو ٹخنوں تک رکھو مگر (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے سے بچو! اس لیے کہ (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانا تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ نیز اگر کوئی شخص تمہیں گالی دے اور تمہارے کسی ایسے عیب پر تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم انتقاما اس کے کسی عیب پر جسے تم جانتے ہو اسے عار نہ دلاؤ کیونکہ اس کا گناہ اسے ہی ملے گا۔

شرح الحديث :

جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پاس لوگ آتے اور وہ جو کچھ وہ کہتا اس پر عمل کرتے ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ۔ اس پر میں کہنے لگا کہ ’عليك السلام يا رسول الله، عليك السلام يا رسول الله‘‘۔ آپ نے ارشاد فرمایا: علیک السلام نہ کہو۔ یہ تو مردہ لوگوں کا سلام ہے ۔ اس کے بجائے ’’السلام علیک‘‘ کہو۔ میں نے پوچھا: کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں ۔ یعنی میں ہی ہوں جسے اللہ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ وہ اللہ کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف و مصیبت پہنچے اور تم اسے عاجزی و لاچاری کے ساتھ پکارو تو وہ تم سے وہ مصیبت دور کردے۔اور اگرخشک سالی آن پڑے اور زمین سے کچھ پیدا نہ ہو اور تم اسے پکارو تو وہ اس میں تہمارے لیے غلہ اگا کر بڑا کردے ۔ اگر تم کسی ایسی زمین میں ہو جہاں نہ پانی ہے اور نہ کسی انسان کا نام و نشان اور تم اپنی سواری گم کر بیٹھو اور پھر تم اسے پکارو تو وہ تمہاری سواری کو تم تک لوٹا دے ۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت فرما دیں جو میرے لیے سود مند ہو۔ آپ نے فرمایا ’’کسی کو برا بھلا مت کہو۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد کسی کو برا بھلا نہیں کہا ۔ نہ کسی آزاد انسان کو اور نہ کسی غلام کو ۔ نہ اونٹ کو اور نہ بکری کو ۔ پھر آپ نے فرمایا ’’کسی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے نہ چھوڑو۔ اورچہرے کی بشاشت کے ساتھ اپنے بھائی سے ملنے کو ہیچ نہ جانو کیونکہ یہ بھی نیکی ہے۔اپنی ازار اور دیگر لباس کو نصف پنڈلی تک اونچا رکھو۔ اگر ایسا نہ کرسکو تو پھر ٹخنوں تک اونچا رکھو۔ ٹخنوں اور نصف پنڈلی کے درمیان رکھنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اور اپنی ازار کو (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ تکبر اور خودپسندی کی علامت ہے اور اللہ کو یہ پسند نہیں ۔اگر کوئی تمہیں برا بھلا کہے یا پھر تمہیں تمہارے گناہ اور برے افعال یاد دلا کر عار دلائے تو تم اس کی برائیوں کے ساتھ اسے عار مت دلاو۔ کیونکہ روز قیامت اس کا وبال اسی پر ہوگا اور ممکن ہے کہ اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی اس پر آجائے‘‘۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية