البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ پس وہ کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے۔ معیقیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے جو ہر مرتبہ سجدہ کرتے ہوئے کنکریاں برابر کرتا تھا فرمایا اگر ایسا کرنا ناگزیر ہو تو صرف ایک ہی بار کرو۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں درج ذیل باتوں کا بیان ہے: ’’إذا قام أحدكم إلى الصلاة‘‘(جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو) یعنی جب وہ نماز شروع کر دے۔ مطلب تکبیرِ تحریمہ سے پہلے کنکریاں صاف کرنا ممنوع نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ فلا يمسح الحصى‘‘ (وہ کنکریوں پر ہاتھ نہ پھیرے)۔یعنی کسی معمولی چیز کی وجہ سے نماز سے رو گردانی نہ کرے کیوں کہ اس سے نماز سے توجہ ہٹتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ اس رحمت سے محروم ہو جاتا ہے جو نماز کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے ملا کرتی ہے۔ یہ اس وقت کے لیے ہے جب ایسا سجدے کے مقام کو درست کرنے کے لیے نہ کیا جائے وگرنہ بقدر ضرورت ایک دفعہ ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ "حصی" چھوٹی چھوٹی کنکریاں ہوتی ہیں۔ یہاں کنکریوں کا ذکر تغلیبا ہوا ہے کیوں کہ مساجد کے فرش پر عموما یہی ہوتی ہیں۔ اس مسئلے میں کنکریوں، مٹی اور ریت کےمابین کوئی فرق نہیں۔ معیقیب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے اس شخص کے بارے میں بیان فرمایا ہے جو سجدے میں جاتے وقت مٹی برابر کرتا تھا کہ اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو ایک دفعہ کرلو۔ ’’أن النبي ﷺ قال في الرجل‘‘ (آپ ﷺ نے اس شخص کے بارے میںکہا جس نے آپ ﷺ سے اپنے متعلق پوچھا تھا) ’’يسوي التراب ‘‘ کہ وہ جہاں سجدہ کرتا ہے اس جگہ کی مٹی کو برابر کرتا ہے۔ یعنی سجدے کی جگہ کو برابر کرتا ہے یا اس پر سجدہ کرنے کے لیے اسے برابر کرتا ہے۔ (کہ اس کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے اسے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’إن كنت فاعلا‘‘ یعنی اگر تمہیں ایسا کرنا ہی ہو اورتمہیں اس کی ضرورت ہو تو ’’فواحدة‘‘ پھر ایک دفعہ کرلیا کرو، ایک سے زیادہ بار نہ کرو۔ چنانچہ کنکریوں کو صاف کرنا مکروہ ہے اِلاّ یہ کہ کنکریوں کی وجہ سے سجدہ کرنا ممکن نہ ہو یعنی یہ بہت زیادہ اوپر نیچے ہوں اور پیشانی اس پر اتنی دیر نہ ٹھہر سکتی ہو جس سے فرض پورا ہو سکے۔ اس صورت میں ایک یا دو دفعہ انھیں برابر کر سکتا ہے۔ کیوں کہ اس سلسلے میں دو روایات ہیں۔ ایک روایت میں ایک دفعہ برابر کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں دو بار برابر کرنے کا ذکر ہے۔ دونوں میں سے جو روایت زیادہ صحیح ہے اس کے مطابق ایک ہی دفعہ برابر کرے، اس سے زیادہ دفعہ نہیں۔ ’’فإن الرحمة تواجهه‘‘ میں نہی کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ (نماز میں) اس پر رحمت کا نزول ہو رہا ہوتا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ یہ نہی کی علت ہے۔ یعنی کسی عقل مند کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ اتنے ہیچ کام میں لگ کر اتنی عظیم الشان نعمت کو وصول کرے۔ یہ بات علامہ طیبی رحمہ اللہ سے منقول ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ علت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کنکریاں صاف کرنے سے ممانعت اس لیے وارد ہے کہ نمازی اپنے دل کو کسی ایسے کام میں مشغول نہ کرے جو اسے اس کی طرف آنے والی اللہ کی رحمت سے غافل کر دے اور یوں وہ اس سے اپنا حصہ پانے سے محروم رہ جائے۔