القوي
كلمة (قوي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من القرب، وهو خلاف...
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (ایک مرتبہ) میں نے میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات گزاری، تو نبی ﷺ اٹھے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوکر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے۔ پھر نیند سے بیدار ہوئے، مشکیزے کے پاس آئے، اس کا منہ بند کھولا، درميانہ وضو کیا، یعنی زیادہ پانی بھی نہیں بہایا اور اسے (تمام اعضا تک) پہنچا بھی دیا۔ پھر نماز پڑھنے لگے۔ میں آہستگی کے ساتھ اٹھا، کیوں کہ مجھے یہ ناپسند تھا کہ آپ ﷺ یہ سمجھیں کہ میں آپ پرﷺ نظریں لگائے بیٹھا تھا۔ میں نے وضو کیا۔ آپ ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ ﷺ نے میرے کان سے مجھے پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ ﷺ کی نماز تیرہ رکعت میں مکمل ہوئی۔ پھر آپ ﷺ لیٹ کر سو گئے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سانسوں کی آواز آنے لگی۔ آپ ﷺ جب سوتے تھے تو آپ ﷺ کے سانس کی آواز آیا کرتی تھی۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھی اور (اس کے لیے نیا) وضو نہیں کیا۔ آپ ﷺ اپنی دعا میں یہ کلمات کہہ رہے تھے: «اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بَصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفَوْقِي نورا، وتحتي نورا، وأمامي نورا، وخلفي نورا، واجعل لي نورا». ترجمہ: اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما، میری نظر میں نور پیدا فرما، میرے کان میں نور پیدا فرما، میری دائیں طرف نور پیدا کر ، میری بائیں طرف نور پیدا کر ، میرے اوپر نور پیدا کر ، میرے نیچے نور پیدا کر، میرے آگے نور پیدا کر ، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔
اس حدیث میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ وہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات کو سوئے، جو نبی ﷺ کی زوجہ ہیں۔ "فأتى حاجَتَه" یعنی آپ ﷺ بول و براز وغیرہ سے فارغ ہوئے۔ "فغسل وجهه ويديه، ثم نام"۔ قضائے حاجت کے بعد آپ ﷺ نے حصول بشاشت کے لیے اپنے چہرۂ انور کو اور صفائی کے لیے اپنے ہاتھوں کو دھویا۔ "ثم قام، فأتى القِرْبَة فأطْلَق شِنَاقَهَا" یعنی نبی ﷺ نیند سے بیدار ہونے کے بعد مشکیزے کی طرف گئےاور اس رسی کو کھولا، جس سے مشکیزے کا منہ باندھا جاتا ہے؛ تاکہ اس میں موجود پانی وغیرہ محفوظ رہے۔ "ثم توضأ"۔ یعنی جیسے آپ نماز کے لیے وضوکرتے تھے، ویسے وضو فرمایا۔ "وضُوءًا بَيْن وضُوءَيْنِ" یعنی ایسا وضو کیا، جس میں نہ تو کوئی کمی تھی اور نہ مبالغہ، بلکہ یہ دونوں کے درمیان تھا۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: "لم يُكْثِرْ" یعنی تین تین دفعہ دھونے سے کم ہی پر آپ ﷺ نے اکتفا کر لیا۔ ایسا کرنا جائز ہے، اگرچہ سنت تین دفعہ دھونا ہے۔ "وقد أَبْلَغَ" اور اچھی طرح سے وضوکیا بایں طور کہ پانی کو ہر اس مقام تک پہنچایا، جہاں اس کا پہنچانا ضروری تھا اور اتنا کرنا واجب ہے۔ "فصلَّى" یعنی رات کی نماز (نماز تہجد) ادا کی۔ "فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ" ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی ﷺ کو یہ سب کچھ کرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ پھر وہ دراز ہو گئے اور جس حالت میں تھے اس کے برعکس ظاہر کیے، تاکہ نبی ﷺ کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ آپ ﷺ کو دیکھ رہے تھے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں: "كراهية أن يرى أني كنت أَتَّقِيهِ" (یعنی مجھے یہ ناپسند تھا کہ آپ ﷺ یہ خیا ل کریں کہ) میں آپ ﷺ کو تاک رہا تھا اور آپ ﷺ کے افعال کو دیکھ رہا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے دراز ہونے اور ایسا ظاہر کرنے کا مقصد یہی تھا۔ انھوں نے ایسا اس لیے کیا کہ عام طور پر انسان جب اپنے گھر میں اکیلا ہوتا ہے، تو کچھ ایسے افعال کرتا ہے، جن پر دوسروں کا مطلع ہونا وہ ناپسند کرتا ہے۔ یا پھر ان کو یہ ڈر لاحق ہو گیا کہ کہیں ان کو اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر نبی ﷺ اپنے کسی عمل کو چھوڑ نہ دیں، جیسا کہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ ﷺ اپنے بعض اعمال کو اس اندیشے کے پیش نظر چھوڑ دیا کرتے تھے کہ کہیں وہ آپ ﷺ کی امت پر فرض نہ ہو جائیں۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے اس فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مخفی رکھنا چاہا؛ تاکہ انھیں آپ ﷺ کے بیدار ہونے سے لے کر نماز فجر کے لیے بلانے والے کے آنے تک کے تمام امور کا تفصیلی علم ہو جائے۔ ایسا انھوں نے اصل ماخذ (یعنی نبی ﷺ) سے حصول علم کی حرص میں کیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "میں نے وضو کیا۔" ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: "میں نے اسی طرح وضوکیا، جیسے آپ ﷺ نے کیا تھا۔" بخاری شریف کی روایت میں ہے: "میں نے اٹھ کر وہی کچھ کیا، جو آپ ﷺ نے کیا تھا"۔ "فقام يصلي فَقُمْتُ عن يساره" یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب دیکھا کہ آپ ﷺ نے نماز شروع کر دی ہے، تو انھوں نے بھی وضو کیا اور نبی ﷺ کے ساتھ جا کر مل گئے۔ تاہم وہ نبی ﷺ کی بائیں جانب کھڑے ہوئے۔ "فأخذ بِأُذُنِي"۔ یعنی نبی ﷺ نے ان کا کان پکڑ کر انھیں بائیں جانب سے گھما کر دائیں جانب کر دیا۔ ایک اور روایت میں ہے: "رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔" آپ ﷺ نے پہلے اپنا ہاتھ رکھا؛ تا کہ کان کو پکڑ سکیں یا (اتفاقا) ہاتھ کان ہی پر پڑا تھا یا پھر آپ ﷺ نے ایسا اس لیے کیا کہ اس کی وجہ سے ان پر برکت کا نزول ہو اور وہ اس مجلس میں نیز اس کے علاوہ دیگر مجالس میں آپ ﷺ کے تمام افعال مبارکہ کو یاد رکھ سکیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کان کو مروڑا۔ آپ ﷺ نے ایسا یا تو سنت کی مخالفت پر تنبیہ کے لیے کیا یا پھر اس لیے کیا تا کہ وہ آپ ﷺ کے جملہ افعال کو ذہن نشین کرنے کے لیے اور زیادہ چاق و چوبند ہو جائیں یا پھر آپ ﷺ نے ان پر طاری اونگھ کے آثار کو دور کرنے کے لیے یا انھیں بائیں طرف سے دائیں طرف گھمانے کے لیے ایسا کیا یا ایسا کرنے سے مقصود ان کے ساتھ اظہار انسیت تھا، کیوں کہ یہ سب کچھ رات کے اندھیرے میں ہو رہا تھا، جیسا کہ بخاری شریف میں موجود ایک روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی تصریح کی ہے۔ یا پھر آپ ﷺ نے ایسا انھیں بیدار رکھنے کے لیے یا ان سے اظہار محبت کے لیے کیا تھا؛ کیوں کہ کم سنی کی وجہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حالت اس کا تقاضا کرتی تھی۔ "فَأَدَارَنِي عن يمينه" یعنی آپ ﷺ نے انھیں اپنی بائیں جانب سے گھما کر دائیں طرف کر دیا۔ جب امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی ہو، تو اس کے کھڑے ہونے کی جگہ یہی ہوتی ہے۔ "فَتَتَامَّت صلاته"۔ اس کی تفسیر میں انھوں نے کہا: "ثلاث عشرة ركعة" یعنی نبی ﷺ نے اس رات بشمول وتر کی ایک رکعت کے تیرہ رکعتیں پڑھیں، جن میں آپ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت میں ہے: "آپ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے"۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں موجود ایک اور روایت میں ہے: "پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں ، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں پڑھیں اور پھر وتر پڑھا۔" يعنی دو ركعتوں سے الگ ایک رکعت پڑھی، کیوں کہ آپ ﷺ نے چھ دفعہ دو دو رکعتیں پڑھی تھیں اور ہر دو رکعتوں کے مابین فاصلہ کیا تھا۔ اس طرح وتر کی ایک رکعت کے علاوہ بارہ رکعتیں ہو گئیں اور آپ ﷺ کی مکمل نماز تیرہ رکعتیں بن گئی۔ چنانچہ وترکی صرف ایک ہی رکعت ہوئی۔ "ثم اضطجع فنام حتى نَفَخ"۔ یعنی آپ ﷺ آواز کے ساتھ سانس لے رہے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو آپ کے سانس نکلنے کی آوز سنائی دے رہی تھی۔ آپ ﷺ جب سویا کرتے تھے تو آپ ﷺ کے سانس کی آواز آیا کرتی تھی۔ "فَآذَنَهُ بلال بالصلاة"۔ یعنی صبح کی نماز کی آپ ﷺ کواطلاع دی۔ "فصلَّى"۔ آپ ﷺ نے پہلے فجر کی سنتیں پڑھیں اور پھر مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور جماعت کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی۔ "ولم يتوضأ"۔ (آپ ﷺ نے دوبارہ وضونہیں کیا) بلکہ اپنے پہلے وضو پر ہی اکتفا کیا۔ یہ نبی ﷺ کے خصائص میں سے ہے۔ یعنی آپ ﷺ کی نیند ناقض وضو نہیں تھی؛ کیوں کہ آپ ﷺ کی آنکھیں تو سوتی تھیں، لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ چنانچہ اگر کوئی وضو توڑنے والی شے خارج ہوئی ہوتی، تو آپ ﷺ کو پتہ چل جاتا، بہ خلاف دیگر لوگوں کے۔ اسی لیے جب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل جاگتا رہتا ہے۔‘‘ اپنی دعا کے اندر آپ ﷺ یہ فرمایا کرتے تھے: "اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بَصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفَوْقِي نورا، وتحتي نورا، وأمامي نورا، وخلفي نورا، واجعل لي نورا"۔ ترجمہ: اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما، میری نظر میں نور پیدا فرما، میرے کان میں نور پیدا فرما، میری دائیں طرف نور پیدا کر ، میری بائیں طرف نور پیدا کر ، میرے اوپر نور پیدا کر ، میرے نیچے نور پیدا کر، میرے آگے نور پیدا کر ، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔ آپ ﷺ نے اپنے اعضا اور اپنی تمام جہات کے لیے نور طلب کیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حق واضح اور روشن ہو جائے اور اس کی طرف راہ نمائی حاصل ہو۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے تمام اعضا، اپنے جسم مبارک، اپنے تمام تصرفات و تحرکات اور اپنی چھے جہات میں نور عطا کیے جانے کی دعا کی؛ تا کہ ان میں سے کوئی بھی شے نور حق سے عاری نہ رہ جائے۔