البحث

عبارات مقترحة:

العفو

كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...

الرزاق

كلمة (الرزاق) في اللغة صيغة مبالغة من الرزق على وزن (فعّال)، تدل...

المقتدر

كلمة (المقتدر) في اللغة اسم فاعل من الفعل اقْتَدَر ومضارعه...

اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ’’ تمہارا جہاد حج ہے‘‘۔

شرح الحديث :

اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم سے ان کی معیت میں جہاد کی اجازت طلب کی تاکہ وہ بھی جہاد کے فضائل حاصل کر سکیں۔ نبی کریم نے ان کو وضاحت کی کہ براہ راست جہاد، دشمنوں کے ساتھ یہ عورتوں کے حق میں مشروع نہیں ہے۔ ان میں غالب حد تک بدنی کمزوری، دل کی نرمی، خطرات کا سامنا کرنے کی متحمل نہ ہونا جیسی صفات پائی جاتی ہیں۔ ہاں ان کا وہاں پر زخمیوں کے علاج کے لیے ، پیاسوں کو پانی پلانے اور اس طرح کے دیگر معاملات کے لیے موجود رہنے کی ممانعت نہیں ہے۔جیسا کہ صحیح بخاری میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ کے سات غزوات میں حصہ لیا۔میں ان کے پیچھے ان کی سواریوں کا خیال رکھتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کو دوائی دیتی اور مریضوں کی نگہداشت کرتی تھی۔آپ نے فرمایا کہ ان کا جہاد حج میں ہے ۔حج اور عمرہ کو جہاد کے ساتھ تشبیہ سفروں کا مجموعہ، وطن سے دوری، اہل و عیال سے جدائی، سفر کے خطرات، بدنی مشقت اور مال کے خرچ کرنے کے اعتبار سے ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے غزوۂ حنین کے موقع پر خنجر پکڑا اور نبی کریم سے کہا کہ میں نے اس لیے پکڑا ہے کہ اگر مشرکین میں سے کوئی میرے قریب آیا تو میں اس کا پیٹ چاک کر دوں گی۔‘‘یہ قتال کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ جو کچھ اس حدیث میں ہے اگر اس کو بھی لیا جائے تو یہ دفاعی قتال پر دلالت کرتا ہے۔اس میں یہ نہیں ہے کہ وہ دشمن کی صفوں کا قصد کرے اور ان سے مبارزت طلب کرے۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية