البارئ
(البارئ): اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (البَرْءِ)، وهو...
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: "ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہاہے؛ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا"۔
نبی کریم ﷺ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ دو قبروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے حالات سے آگاہ فرما دیا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپﷺ نے اپنی امت کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لیے صحابہ کو بتادیا کہ ان دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور جن گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، اللہ کی توفیق سے ان کو چھوڑنا اور ان سے بچنا بھی چنداں مشکل نہیں۔ ان میں سے ایک کو عذاب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ قضائے حاجت کے وقت پیشاب کے چھینٹوں سےاجتناب نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ پیشاب کی نجاست سے اس کے کپڑے اور بدن آلودہ ہو جاتے تھے، نیز پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ جب کہ دوسرا شخص لوگوں میں چغلی کرتا پھرتا تھا، جو لوگوں بالخصوص رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا سبب بنتی تھی۔ اس کے پاس آتا تو اس کی باتیں بتاتا اور اس کے پاس جاتا تو اس کی باتیں بتاتا؛ اس طرح ان کے درمیان قطع تعلقی اور جھگڑا پیدا کرتا۔ جب کہ اسلام لوگوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے اور تنازع و جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔رحیم و کریم نبی کو ان پر شفقت اور رحم آیا۔ چنانچہ کھجور کی ایک تر شاخ پکڑی، اسے پھاڑ کر دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عجیب و غریب عمل کے بارے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شاید میری سفارش کی وجہ سے ان پر ہونے والے عذاب میں اللہ تعالیٰ اس وقت تک تخفیف فرما دے، جب تک یہ خشک نہیں ہو جاتیں۔ یعنی جب تک ان میں تری باقی رہے۔ واضح رہے کہ یہ فعل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔