الأول
(الأوَّل) كلمةٌ تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ: تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چلنا جس سے قوت کا اظہار ہو) کریں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت و نرمی کرتے ہوئے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے چھٹویں سال صحابہ کی کثیر تعداد کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ آئے، تو کفار قریش آپ سے لڑنے اور آپ کو اللہ کے گھر سے روکنے کے لئے نکلے، چناں چہ ان کے درمیان صلح ہوئی جس کے مضمون میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سال اپنے اصحاب کے ہمراہ واپس لوٹ جائیں اور اگلے سال عمرہ کی نیت سے آئیں اور مکہ میں صرف تین دن تک قیام کریں، چناں چہ سن سات ھجری میں جب وہ دوبارہ عمرہ کی قضا کے لئے آئے تو مشرکین نے -تسکین خاطر اور بطور ہنسی اور ٹھٹھا- آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آرہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نےتوڑ دیا اور کمزور بنا دیا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ بات پہونچی تو آپ ﷺ نےان کے جواب میں اور ان کو برانگیختہ کرنے کے لئے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ تیز چلیں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں عام چال چلیں۔ یہ حکم صحابہ کے ساتھ نرمی اور شفقت کے باب سے تھا جب کہ وہ دونوں رکنوں کے درمیان ہوں اور وہ مشرکین انہیں نہ دیکھ سکیں جو" قعيقعان" نامی پہاڑ پر اس لئے چڑھ آئے تھے کہ وہ مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئےدیکھ سکیں۔ لیکن تیز چال نے انہیں آگ بگولہ کردیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کہ یہ سب تو ہرن کے مانند ہیں۔ اس طرح دلکی چال طوافِ قدوم میں سنت جاریہ قرار پائی۔ تاکہ اپنے گزرے ہوئے اسلاف کے واقعہ کو یاد کیا جائے اور ان کے قابل تعریف مواقف اور زبردست صبر اور جو کچھ دین کی مدد اور اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے انہوں نے اچھے کام انجام دئے ہیں ان میں ان کی اقتدا کی جائے۔ اللہ ہمیں ان کی پیروی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔