المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کا احترام کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے‘‘۔
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ چند امور ایسے ہیں جن سے اللہ کی تعظیم و توقیر ہوتی ہے۔ ان امور کا ذکر اس حدیث میں ہے جو یہ ہیں: (إكرام ذي الشيبة المسلم): یعنی بڑی عمر کے مسلمان بزرگ کی تعظیم بایں طور کہ مجالس میں اس کی توقیر کرنا، اس سے نرمی اور شفقت بھرا معاملہ کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ کی کامل طور پر تعظیم کرنے میں آتا ہے کیونکہ بوڑھے شخص کا اللہ کے نزدیک بہت احترام ہے۔ (وحامل القرآن): یعنی قرآن کے حافظ کا اکرام کرنا۔ اسے حامل قرآن کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ قرآن اس کے سینے میں ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے بہت مشقتیں برداشت کی ہوتی ہیں جو بڑے بڑے بوجھ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس تعظیم کے دائرے میں وہ شخص بھی آتا ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کی تفسیر میں مشغول رہتا ہے۔ وہ حامل قرآن جس کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے اس کی دو امتیازی صفات بیان ہوئی ہیں: (غير الغالي): غلو کا معنی ہے سختی برتنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یعنی وہ حامل قرآن جو قرآن پر عمل کرنے میں اور اس کےمعانی میں سے جو اس پر مخفی اورمشتبہ ہوں ان کی ٹوہ میں لگنے میں اور اس کی قرأت کی حدود اور حروف کے مخارج میں حد سے تجاوز نہ کرنے والا ہو۔ ایک قول کی رو سےغلو کا معنیٰ تجوید میں اور جلدی پڑھنے میں مبالغہ کرنا ہے بایں طور کہ یہ بات اس کے معانی پر غور وتدبر میں آڑے آ جائے۔ (والجافي عنه): یعنی اس سے دور نہ ہٹنے والا اور اس کی تلاوت اور اچھے انداز میں اسے پڑھنے، اس کے معانی میں مہارت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے رو گردانی نہ کرنے والا۔ایک اور قول کی رو سے جفاء کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے خاص طور پر جب کہ وہ سستی اور اعراض کرنے کی وجہ سے اسے بھول جائے۔ آخری شے جس کے اکرام کرنے کا حدیث نبوی ﷺ میں ذکر آیا وہ عادل حکمران ہے۔ یعنی وہ صاحب اقتدار اور صاحب منصب جو عدل سے متصف ہو۔ اس کی عزت اس لیے ہے کیونکہ وہ سب کے لیے نفع بخش ہے اور اپنی رعایا کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔