الباطن
هو اسمٌ من أسماء الله الحسنى، يدل على صفة (الباطنيَّةِ)؛ أي إنه...
ابو سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیس راتیں رہے۔ آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اورجو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ اس طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے"۔ یہ عام الوفود یعنی ہجرت کے نویں سال کا واقعہ ہے۔ یہ سب لوگ نوجوان تھے اور نبی ﷺ کے پاس انہوں نے بیس راتوں تک قیام کیا۔ یہ لوگ اللہ کے دین کو سمجھنے کے لیے آئے تھے۔ مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں"۔ یعنی ہمارا ان سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے۔ "چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو اور فلاں نماز کو اس وقت پڑھو۔ اورجب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے"۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ رحم دلی و نرمی میں مشہور تھے۔ آپ ﷺ لوگوں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر رحم دل تھے اور سب سے زیادہ نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ آپ ﷺ رحیم بھی تھے اور شفیق بھی۔ آپ ﷺ نے جب یہ دیکھا کہ ان لوگوں کو اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنے پیچھے کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ انہوں نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جائیں۔ "اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے"۔ یہ امامت کے لیے بڑے کو مقدم کرنے کی دلیل ہے۔ یہ بات نبی ﷺ کے اس فرمان کے منافی نہیں ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "لوگوں کو وہ شخص امامت کرائے جو سب سے زیادہ قرآن کا قاری ہو۔" کیونکہ یہ سب نوجوان ایک ہی وقت میں آئے تھے اور ظاہر ہے کہ قرأتِ قرآن کے لحاظ سے ان کے مابین کوئی واضح فرق نہیں تھا اور اس معاملے میں وہ ایک دوسرے کے قریب قریب ہی تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے زیادہ قرآن کا قاری نہیں تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے"۔ کیونکہ قرأت کے معاملے میں وہ سب برابر یا قریب قریب تھے۔ جب یہ لوگ قرأت، سنت اور ہجرت کے معاملے میں برابر ہو گئے تو پھر امامت کا حق بڑے کا ہو گا اور وہ اسے ہی مقدم کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "ویسے نماز پڑھو جیسے تم میں نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے"۔ یہ اس نبوی طریقۂ کار کی تاکید ہے کہ آپ ﷺ قول و فعل دونوں کے ذریعے تعلیم دیا کرتے تھے۔ جس شخص نے سکون کے ساتھ نماز نہ پڑھی اسے آپ ﷺ نے یہ فرما کر تعلیم دی کہ "جب نماز کے لیے تمہارا کھڑا ہونے کا ارادہ ہو تو اچھی طرح وضو کرو، پھر قبلہ رخ ہوجاؤ اور پھر قرآن کا جو بھی حصہ چاہو اسے پڑھو اور پھر رکوع کرو۔۔۔الخ"۔ جب کہ ان نوجوانوں کو آپ ﷺ نے فعل (عمل) کے ذریعے تعلیم دی۔