العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عطاء ابن ابی رباح سے کہا کہ کیا تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھاؤں؟ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ضرور دکھائیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک سیاہ فام عورت نبی ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی کہ مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اگر تم چاہو تو صبر کرو تمہیں اس پر جنت ملے گی اور اگر چاہو تو میں تمہارے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دیتا ہوں‘‘۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے کہا کہ (مرگی کے وقت) میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ دعا فرما دیں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
حدیث شریف میں اس بات کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے شاگرد عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: کیوں نہیں! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اس سیاہ فام عورت کو دیکھ لو۔ سیاہ فام عورت جس کی طرف توجہ بھی نہیں جاتی اور زیادہ تر لوگ اسے پہنچانتے تک نہیں۔ اسے مرگی کا دورہ پڑتا اور اس کا ستر کھل جاتا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو اس بارے میں بتایا اور آپ ﷺ سے گزارش کی کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ اسے مرگی کے مرض سے شفاء مل جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو میں اللہ سے تمہارے لیے دعا کر دیتا ہوں اور اگر تم چاہو تو پھر صبر کرو اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت ملے گی‘‘۔ تواس نے جواب دیا کہ میں صبر کرتی ہوں۔ اگرچہ اس عورت کو مرگی کی وجہ سے درد اور اذیت ہوتی تھی لیکن اس نے جنت کو پانے کے لیے صبر کو اختیار کیا۔ تاہم اس نے آپ ﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میرا ستر کھل جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کردیں کہ میرا ستر نہ کھلے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے اللہ سے دعا فرمائی کہ وہ ننگی نہ ہوا کرے۔بعد ازاں اسے مرگی کا دورہ تو پڑتا لیکن اس کا ستر نہیں کھلتا تھا۔