الطيب
كلمة الطيب في اللغة صيغة مبالغة من الطيب الذي هو عكس الخبث، واسم...
جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں تمام معاملات میں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے، جس طرح قرآن مجيد كى سورت كى۔۔ آپ ﷺ فرماتے: ‘‘جب تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح) کام کا ارادہ کرے، (ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو) تو دو رکعات (نفل) پڑھے۔ اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ ! میں تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں تیرے علم کے واسطہ سے، تجھ سے قدرت مانگتا ہوں تیری قدرت کے واسطہ سے اور تیرا فضلِ عظیم چاہتا ہوں، کیوں کہ تو قادر مطلق ہے میرے اندر قدرت نہیں، تو علم والا ہے مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے؛ میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے -یا دعا میں یہ الفاظ کہے: اِس جہاں اور اُس جہاں میں بہتر ہے- تو اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے؛ میرے دین کے لیے ، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے -یا یہ الفاظ فرمائے : اِس جہاں اور اُس جہاں کے لئے برا ہے- تو اسے مجھ سے پھیر دے، مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے’’۔ اور فرمایا: " (اس کے بعد) اپنی ضرورت کا بیان کر ے‘‘۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کو نمازِ استخارہ کی کیفیت سکھلانے کی اسی طرح حرص رکھتے تھے، جس طرح انھیں قرآن کی سورت کی تعلیم دینے کی حرص رکھتے تھے۔ نبی ﷺ نے بتایا کہ انسان فرض نمازوں کے علاوہ دو رکعات نماز ادا کرے، پھر سلام کے بعد اللہ سے دعا کرے کہ وہ (زیر غور) دو معاملوں یا معاملات میں بہتر کی طرف اس کے سینے کو کھول دے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمام امور کی کیفیات و جزئیات کا علم رکھتا ہے۔ اسے یوں سمجھا جائے کہ دونوں معاملوں میں بہتر کا احاطہ وہی کر سکتا ہے، جو اس سے واقف ہو اور ایسا اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں ہے۔ وہ اللہ سے دونوں معاملوں میں سے جو اچھا ہو، اس کے کرنے کی طاقت مانگے اور اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرے؛ کیوں کہ وہ ان تمام ممکنہ امور کی طاقت رکھتا ہے، جو اس کی مشیئت کے مطابق ہوں، جب کہ انسان کسی چیز کی طاقت نہیں رکھتا۔ اللہ عز و جل ہر کلی و جزئی چیز کو جانتا ہے اور انسان اس میں سے اتنا ہی جانتا ہے، جتنا اللہ نے اسے سکھایا ہو؛ کیوں کہ اللہ کے علم غیب کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ پھر اپنے رب سے طلب کرے کہ اگر یہ کام (اور اس کا نام لے) جس کا اس نے اردہ کیا ہے، اس کے علم میں بہتر ہے اور اس کی وجہ سے کوئی دینی یا دنیوی نقصان مرتب نہیں ہوگا، تو اسے اس کے لیے مقدر و آسان کردے۔ اور اگر یہ کام اس کے علم کے مطابق کسی دینی یا دنیوی نقصان کا باعث ہو، تو اسے اس سے دور کردے اور اس کام کو اس سے دور کردے، اور بھلائی اس کا مقدر کردے، چاہے جہاں کہیں بھی وہ ہو، پھر اسے اللہ کی قضا و قدر سے راضی کردے۔