المتكبر
كلمة (المتكبر) في اللغة اسم فاعل من الفعل (تكبَّرَ يتكبَّرُ) وهو...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے ہمارے ساتھ کچھ آدمی بھیج دیں جو (ہمیں) قرآن اور سنت کی تعلیم دیں۔ آپ نے ان کے ساتھ ستّر (70) انصاری صحابہ بھیج دیے جنہیں قرّاء کہا جاتا تھا۔ ان میں میرے ماموں حضرت حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ بھی تھے، یہ لوگ رات کے وقت قرآن پڑھتے تھے، ایک دوسرے کو سناتے تھے، قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے، اور دن کو مسجد میں پانی لا کر رکھتے تھے اور جنگل سے لکڑیاں لا کر فروخت کرتے اور اس سے اصحاب صفہ اور فقراء کے لیے کھانا خریدتے تھے، نبی (ﷺ) نے انہیں ان (آنے والے کافروں) کی طرف بھیجا اور انہوں نے منزل پر پہنچنے سے پہلے (راستے ہی میں دھوکے سے) ان پر حملہ کردیا اور انہیں شہید کردیا، اس وقت انہوں نے کہا : ”اے اللہ ! ہماری طرف سے ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہماری تجھ سے ملاقات ہوگئی ہے، ہم تجھ سے راضی ہوگئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہوگیا ہے“۔ اس سانحے میں ایک شخص نے پیچھے سے آ کر انس رضی اللہ عنہ کے ماموں، حرام (بن ملحان) رضی اللہ عنہ کو اس طرح نیزہ مارا کہ وہ آر پار ہوگیا تو انہوں نے کہا ”رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہوگیا“، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا : " تمہارے بھائی شہید کردیے گئے ہیں اور انہوں نے کہا ہے ”اے اللہ ! ہمارے نبی کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم نے تجھ سے ملاقات کرلی ہے، ہم تجھ سے راضی ہوگئے ہیں اور تو ہم سے راضی ہوگیا ہے“۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کا وفد آپ ﷺ کے پاس آیا، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگ اسلام لے آئے ہیں اور آپ ﷺ سے ایسے لوگوں کا مطالبہ کیا جو ان کو قرآن سکھائیں، آپ ﷺ نے ان کو ستر (70)صحابہ دیے، ان کو قرآن کا زیادہ حصہ یاد ہونے اور قرآن کے ساتھ زیادہ وابستگی کی وجہ سے انہیں قراء کہا جاتا تھا۔ تاہم قرآن کے ساتھ وابستگی انہیں کسبِ حلال سے نہیں روکتی تھی، اسی وجہ سے انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ " وكانوا بالنَّهار يَجِيئُون بالماء، فَيَضَعُونَه في المسجد، وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويَشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء " اس کا مطلب یہ ہے کہ دن کو یہ لوگ پانی لا کر مسجد میں رکھ دیا کرتے تھے تاکہ جو چاہے اسے پاکی حاصل کرنے یا پینے یا کسی اور غرض سے استعمال کرے۔ " وَيَحْتَطِبُونَ فَيَبِيعُونَهُ، ويشترون به الطعام لأهل الصُّفَّةِ، وللفقراء"۔اصحابِ صفہ وہ فقیر اور غریب لوگ تھے جنہوں نے مسجدِ نبوی کو اپنا ٹھکانا بنایا تھا، مسجد کے آخر میں، مسجد سے الگ ان کے لیے ایک چبوترہ تھا، جس پر سائبان تھا، وہاں وہ رات گزارتے تھے۔ آپ ﷺ نے قرّاء کو بھیجا، جب انہوں نے بئر معونہ پر پڑاؤ ڈالا، یہ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے کی جگہ تھی، ان کی منزل أبو براء بن مُلَاعِبِ الْأَسِنَّہ کا گھر تھا، تو عامر بن طفیل اور اس کے ساتھ لوگوں کی ایک جماعت نے ان سے قتال کیا۔ " اللهُمَّ بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فرضِيْنَا عنَّك ورضِيت عنَّا " وفي رواية ’’ألا بَلِّغوا عنَّا قوْمَنا أنا قد لقِيْنَا ربَّنا فَرَضِي عنَّا وأرضَانا "۔ جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آپ ﷺ کو بتایا " أنهم قد لقوا ربهم، فرَضِى عنهم وأرضاهم " جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنے رب سے ملاقات کر لی، رب ان سے راضی اور وہ رب سے راضی ہیں۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا " إن إخْوَانَكم قد قُتِلوا وإنهم قالوا: اللَّهم بلِّغ عنَّا نبيَّنا أنَّا قد لَقِينَاكَ فَرَضِينا عنَّك ورَضِيت عنَّا"۔ یعنی ان کی اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے اور اس کے بدلے اللہ نے جو ان کا اکرام کیا، انہیں بہت سارا خیر دیا اور اس خیر، احسان اور رحمت پر مستزاد یہ کہ اپنی خوشنودی دی اس سے وہ بھی خوش ہیں۔