السيد
كلمة (السيد) في اللغة صيغة مبالغة من السيادة أو السُّؤْدَد،...
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کريم ﷺ اور آپ کے صحابہ نے حج کا احرام باندھا۔ نبی ﷺ اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا۔ علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ ﷺ نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے۔ نبی ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردیں اور بیت اللہ کا طواف کر کے بال کٹوا لیں اور حلال ہوجائيں سوائے ان کے جن کے پاس ہدی کا جانور ہو۔ اس پر لوگ کہنے لگے کہ کیا ہم مِنی کی طرف اس طرح جائیں گے کہ ہمارے آلۂ تناسل سے (مَنی) ٹپک رہی ہوگی؟! یہ بات رسول اللہ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر يہ بات جس كا علم مجھے بعد ميں ہوا، پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی (عمرہ کے بعد) حلال ہو جاتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے تمام اعمالِ حج ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا۔ پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور بيت اللہ کا طواف کر لیا تو عرض کيا: “اے اللہ کے رسول ! آپ لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں اور میں صرف حج ہی کرکے واپس ہوجاؤں؟ ” تو آپ ﷺ نے عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کو حکم ديا کہ انہیں ساتھ لے کر تنعیم جائیں۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کرنے کے بعد عمرہ کیا۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کے حج کے بارے ميں بتلا رہے ہیں کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نے حج كا احرام باندھا، تاہم نبی ﷺ اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے سوا ان میں سے کسی کے پاس بھی ہدی کا جانور نہیں تھا۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس وقت یمن میں تھے۔ چنانچہ وہ آئے، اور ان کی فقاہت دیکھیے کہ انہوں نے احرام باندھا اور اپنے احرام کو نبی ﷺ کے احرام کے ساتھ معلق کردیا۔ جب وہ لوگ مکہ آئے تو نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے حج کا احرام ختم کر کے اسے عمرہ کے لئے کر دیں اور عمرہ کے لیے طواف اور سعی کریں اور پھر بال کتروا کر مکمل طور پر حلال ہوجائيں۔ یہ حکم اس شخص کے بارے میں تھا جو اپنے ساتھ ہدی نہیں لایا تھا۔ البتہ جو لوگ ہدی لے کر آئے تھے بشمول نبی ﷺ کے وہ طواف او ر سعی کرنے کے بعد اپنے احرام ہی ميں رہے۔ جن لوگوں کو حج کو عمرہ ميں تبديل کرنے کے ليے کہا گیا تھا وہ حيرت واستعجاب سے کہنے لگے: ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حلال ہوکر اپنی بیویوں سے صحبت کریں اور پھر حج کا احرام باندھ کر منی کی طرف روانہ ہوں حالانکہ ہم نے ابھی ابھی اپنی بیویوں سے ہم بستری کی ہو؟ نبی ﷺ تک جب ان کی یہ بات پہنچی اور آپ ﷺ کو علم ہوا کہ ان پر یہ بات بڑی گراں گزر رہی ہے تو آپ ﷺ نے انہیں حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے دلاسہ دیا کہ: اگر مجھے یہ بات پہلے معلوم ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی ہے تو میں اپنے ساتھ یہ ہدی کا جانور نہ لاتا جس نے مجھے حلال ہونے سے روک دیا اور میں بھی تمہارے ساتھ حلال ہو جاتا۔ اس پر ان کے دل راضی اور مطمئن ہو گئے۔ جب وہ مکہ میں داخل ہونے والے تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہوگئيں۔ چنانچہ وہ حج قران کرنے والی ہو گئیں کیونکہ حیض آنے کی وجہ سے وہ بیت اللہ کا طواف نہ کر سکیں۔ تاہم طواف اور سعی کے علاوہ انہوں نے تمام مناسک ادا کئے۔ جب وہ حیض سے پاک ہو گئیں اور اپنے حج کے لیے بیت اللہ کا طواف کیا تو ان کے دل میں گرہ پڑ گئی کہ اکثر صحابہ بشمول نبی ﷺ کی ازواج نےتو الگ سے عمرہ بھی کیا اور حج بھی، جب کہ ان کا عمرہ، حج کے اندر شامل ہو گیا۔ اس پر وہ رسول اللہ ﷺ سے کہنے لگیں: “آپ لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں اور میں صرف حج کرکے واپس ہوجاؤں؟ آپ ﷺ نے ان کی دل جوئی کے لیے ان کے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو حکم ديا کہ وہ انہیں مقام تنعیم لے کر جائیں (تا کہ وہ وہاں سے احرام باندھ لیں)۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کے بعد عمرہ کی ادائیگی کی۔