عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر تم اللہ پر ویسے بھروسہ کرو جیسا کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں‘‘۔
شرح الحديث :
اس حدیث میں اس بات کی طرف راہنمائی ہے کہ ہم اپنے تمام امور میں اللہ تعالیٰ پر توکل کریں۔ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ دینی و دنیاوی مصالح کے حصول اورنقصان دہ اشیاء کے دفعیہ میں اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا نہ تو کوئی دیتا ہے اور نہ کوئی روک سکتا ہے اوراس کے سوا نہ کوئی نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع دینے کا اہل ہے۔ اور یہ کہ توکل کے ساتھ ساتھ انسان کو وہ اسباب ضروراختیار کرنا چاہئے جو منافع کے حصول اورنقصان دہ اشیاء کے دفعیہ کا ذریعہ ہوتے ہیں۔﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾۔ ترجمہ: ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے، اس کے لئے وہ کافی ہو جاتا ہے‘‘۔﴿وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ) ترجمہ: ’’توکل کرنے والوں کو اسی پر توکل کرنا چاہئے‘‘۔ جب بندہ یہ کرتا ہے تو اللہ اسے ایسے رزق دیتا ہے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اورشام کو بھرے پیٹ کے ساتھ واپس آتے ہیں۔