العالم
كلمة (عالم) في اللغة اسم فاعل من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ حرقہ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت ان کے پانیوں پر انہیں جالیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک انصاری آدمی قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیرلیا تو اس نے کہا ”لا الہ الا ﷲ“۔ انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا۔ جب ہم مدینہ آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی ﷺ تک پہنچی۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اسامہ! کیا تم نے کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنے کے بعد بھی اسے قتل کر ڈالا؟‘ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: کیا تم نے اسے ’’لا الہ الا ﷲ‘‘ کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا؟‘‘آپ ﷺ یہ جملہ بار بار مجھ سے کہتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کاش میں اس دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كيا اس نے لا إله إلا الله کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس نے ایسا اسلحے کے خوف سے کہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تجھے پتہ چل جاتا کہ اس نے خلوص دل سے پڑھا تھا یا نہیں؟‘‘ پھر آپ ﷺ بار بار یہی بات دُہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش ! میں اسی روز مسلمان ہوا ہوتا۔ جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم کی طرف بھیجا اور ان کا آمنا سامنا ہو گیا۔ مشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان کی طرف چاہتا بڑھ کر اسے قتل کر دیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت کی حالت میں جا لیا۔ ہم آپس میں گفتگو کرتے تو کہتے تھے کہ وہ مسلمان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما تھے۔ پھر جب انھوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا: لا الٰہ الا اللہ لیکن انھوں نے اسے مار ڈالا۔ اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کے بارے میں بھی بتا دیا کہ اس نے کیا کیا۔ آپ ﷺ نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مار ڈالا؟‘‘ انہوں (سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: یا رسول اللہ ! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو قتل کر دیا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔میں جب اس پر حملہ آور ہوا اور اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ پڑھنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے اس کو قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن جب یہ کلمہ لا الہ الا اللہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ انھوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش کی دعا کردیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن جب یہ کلمہ لا الہ الا اللہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟ پھر آپ ﷺ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ: قیامت کے دن جب یہ کلمہ لا الہ الا اللہ آئے گا تو تم کیا جواب دو گے؟‘‘۔
نبی ﷺ نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ایک سریہ میں جہینہ قبیلے کی شاخ حرقہ کی طرف بھیجا۔ جب وہ ان لوگوں پر جا کر حملہ آور ہو گئے تو مشرکین میں سے ایک شخص بھاگ اٹھا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری آدمی اسے قتل کرنے کے ارادے سے اس کے پیچھے لگ گئے۔ جب انہوں نے اسے جا لیا تو اس نے کہا: لا الہ الا اللہ۔ انصاری آدمی نے تو اسے چھوڑ دیا کیونکہ اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تھا لیکن اسامہ رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا۔ جب وہ مدینے واپس لوٹے اور نبی ﷺ تک یہ خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کہنے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر دیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ! وہ تو یہ کلمہ صرف قتل ہونے سے بچنے کے لیے پڑھ رہا تھا اور اس کی آڑ لے رہا تھا۔ نبی ﷺ نے ان سے کہا کہ تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں یقینی طور پر اس کا علم ہو جاتا۔ قیامت کے دن جب کلمہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ آئے گا تو پھر تم کیا کرو گے۔ تمہاری کون سفارش کرے گا۔اس وقت تمہاری طرف سے کون جھگڑا کرے گا جب کلمہ توحید کو لایا جائے گا اور تمہیں کہا جائے گا کہ تم نے اس کلمہ کو پڑھنے والے کو کیسے قتل کر دیا؟۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں نے آج سے پہلے اسلام ہی قبول نہ کیا ہوتا۔ کیوں کہ اگر وہ کافر ہوتے اور پھر مسلمان ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دیتا۔ لیکن اب تو مسلمان ہونے کی حالت میں ان سے یہ فعل سر زد ہو گیا۔