الولي
كلمة (الولي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من الفعل (وَلِيَ)،...
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کےدن فرمایا: "میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا۔" عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اس ایک دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی۔ انھوں نے مزید کہا: میں نے اس امید سے کہ مجھے اس کے لیے بلایا جائے گا، اپنی گردن اونچی کی، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا، ان کو وہ جھنڈا دیا اور فرمایا: "جاؤ، پیچھےمڑ کر نہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ تمھیں فتح عطا کردے۔" انھوں نے کہا: علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دور گئے، پھر ٹھہر گئے، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور بلند آواز سے پکار کر کہا: اللہ کے رسول! میں کس بات پر لوگوں سے جنگ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، توانھوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال تم سے محفوظ کرلیے، سوائے کسی حق کے بدلے اوران کاحساب اللہ پر ہوگا۔"
رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خیبر کے دن اعلان فرمایا: میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر خیبر کے بعض قلعوں پر فتح نصیب کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس دن کے علاوہ کبھی امارت کی تمنا نہ کی، اس امید میں کہ نبی ﷺ کی جانب سے اعلان کردہ خوش خبری مجھے حاصل ہوجائے۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس امید میں اپنی گردن لمبی کرنے لگا کہ مجھے جھنڈا کے لئے بلایا جائے گا، تاہم رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور انھیں جھنڈا عنایت فرمایا اور حکم دیا کہ جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھو، تا آں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں فتح و کامرانی سے نواز دے؛ کیوں کہ مڑ کر دیکھنے سے تمہاری کامل توجہ و یکسوئی میں فرق پیدا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ کچھ دور گئے پھر ٹھہرگئے اور نبی ﷺ کی مخالفت سے بچتے ہوئے بغیر مڑے ہی بلند آواز سے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: میں کس بات پر لوگوں سے جنگ کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اگر انھوں نے اس شہادت کا اقرار کرلیا، توانھوں نےتم سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کرلیے، سوائےکسی حق کے بدلے، تو اس حق کے تئیں ان کا مؤاخذہ کیا جائے گا، جیسے جان کے بدلہےجان اور زکوٰۃ کا اموال۔ جہاں تک ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پایا جانے والا مخفی معاملہ ہے، تو اگر وہ اپنے قول میں سچے رہے اور ایمان خالص کو اختیار کیا، تو یہ چیز ان کی آخرت میں نفع بخش ثابت ہوگی اور وہ عذاب سے بچ جائیں گے، جسیے انھیں دنیا میں اس سے فائدہ ہوا؛ ورنہ انھیں ان کے ایمان کا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا، بلکہ وہ جہنم میں رہنے والے منافق ہوں گے۔