البحث

عبارات مقترحة:

الغفار

كلمة (غفّار) في اللغة صيغة مبالغة من الفعل (غَفَرَ يغْفِرُ)،...

الوكيل

كلمة (الوكيل) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) بمعنى (مفعول) أي:...

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ”ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا۔ اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہیں تھا۔ ’’مجھے جھٹلانا‘‘ یہ ہے کہ (ابن آدم) کہتا ہے کہ میں اس کو دوبارہ نہیں پیدا کروں گا حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں۔ بےنیاز ہوں نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ ہی کوئی میرے برابر ہے۔

شرح الحديث :

یہ حدیثِ قدسی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «كذَّبني ابنُ آدم ولم يكن له ذلك» یعنی کچھ لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔اس سے مُراد عرب کے مشرکین، بتوں کو ماننے والے اور عیسائی ہیں جو دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کرتے ہیں جیسا کہ حدیث کے بقیہ حصے میں آئے گا۔ لوگوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اللہ کو جھٹلائیں اور نہ ہی اللہ کو جھٹلانا اس کے شایانِ شان ہے۔ «وشتمني ولم يكن له ذلك» گالی دینا یعنی کسی کو ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جو اس میں عیب اور نقص بتاتا ہو۔ اس سے مُراد یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو ایسی چیز کے ساتھ متصف کیا ہے جو اللہ کی ذات میں نقص ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹے کو ثابت کیا ہے۔ ان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو گالی دیں اور نہ اللہ تعالیٰ کو گالی دینا روا ہے۔ پھر اس اجمال کی تفصیل یہ کہتے ہوئے بیان فرمائی «فأما تكذيبه إياي فقوله: لن يعيدني كما بدأني» یعنی بندے کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا یہ ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے موت کے بعد پہلی طرح دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ یہ تو کفر اور تکذیب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی «وليس أول الخلق بأهون عليَّ من إعادته» یعنی مخلوق کو ابتداءً پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے آسان نہیں ہے، بلکہ میرے قدرت میں تو دونوں یکساں ہیں، عام طور پر دوبارہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کی اصل اور بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ «وأما شتمه إياي فقوله: اتخذ الله ولدا» یعنی اللہ کے لیے بیٹے کو ثابت کرتے ہیں، جیسے قرآن میں ہے ’’وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّـهِ“ (سورۂ توبہ: 30) (ترجمہ: یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے)۔ عرب کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کو گالی دینا ہے، اس کی تنقیص ہے اور اسے مخلوق کی جگہ پر اتارنا ہے۔ ان کی اس قول کا جواب دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا «وأنا الأحد» میں بالکل اکیلا ہوں اپنی ذات اور صفات میں، ہر طرح کے نقص سے پاک ہوں، تمام صفاتِ کمال کے ساتھ متصف ہوں۔ «الصمد» جو کسی کا محتاج نہیں، اس کے علاوہ ہر ایک اس کا محتاج ہے، وہ ذات جو شرافت اور بادشاہت میں کامل ہے۔ «لم ألِد» یعنی میں کسی کا باپ نہیں ہوں۔ «ولم أولد» نہ میں کسی کا بیٹا ہوں، اس لیے کہ وہ اول ہے اس کی کوئی ابتداء نہیں، اسی طرح وہ آخر ہے اس کی کوئی انتہاء نہیں۔ «ولم يكن لي كفئا أحد» یعنی میرا کوئی ہم مثل اور نظیر نہیں۔ ہمسری کی نفی کرنا باپ ہونے، بیٹا ہونے اور بیوی ہونے وغیرہ تمام چیزوں کو شامل ہیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية