القدير
كلمة (القدير) في اللغة صيغة مبالغة من القدرة، أو من التقدير،...
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یمن سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے پاس بیری کے پتوں سے دباغت دیےہوئے چمڑے کے ایک تھیلے میں سونے کے چند ڈلے بھیجے۔ ان سے (کان کی) مٹی بھی ابھی صاف نہیں کی گئی تھی۔راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا ۔ عیینہ بن بدر ، اقرع بن حابس ، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ رضی اللہ عنہ تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ ۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے اس پر کہا کہ ان لو گو ں سے زیادہ ہم اس سونے کے مستحق تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالاں کہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر (وحی) صبح و شام آتی ہے۔‘‘راوی نے بیان کیا کہ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی ، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا ، تہبند اٹھائے ہوئے تھا ، کھڑا ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ ! اللہ سے ڈریئے۔ آپﷺنے فرمایا ، افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں۔‘‘ راوی نے بیان کیا پھر وہ شخص چلا گیا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں شاید وہ نما ز پڑھتا ہو‘‘، اس پر خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے دل میں وہ نہیں ہوتا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’مجھےاس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج کروں اور ان کے پیٹ چاک کروں‘‘، راوی نے کہا پھر آپ ﷺ نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا ۔ آپﷺنے فرمایا کہ ’’ اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار (شدہ جانور) سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘ (راوی) کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انھیں قتل کر دیتا۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا۔ وہ لوگوں کو اللہ کی دعوت دیتے، صاحب نصاب سے زکوۃ وصول کرتے اور ان کے تنازعات کے فیصلے کرتے تھے۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کی بات ہے۔ پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے اور حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے مکہ میں ملے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی طرف سونے کا ڈلا (ٹکڑا) بھیجا تھا جس سے مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی اس لیے وہ خالص سونا نہیں تھا کیونکہ وہ مٹی کے ساتھ مختلط تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ ڈلا مذکورہ بالا چار افراد کے مابین تقسیم کر دیا اس امید پر کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ وہ چوں کہ اپنے قبائل کے سردار تھے اس لیے اگر وہ اسلام قبول کر لیتے تو ان کی پیروی میں بہت بڑی تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے ترغیبِ اسلام اور تالیفِ قلب کے لیے وہ سونا ان کو دے دیا۔ ان میں سے جن مسلمانوں کو دیا تو اس کا مقصد ایمان پر مضبوطی اور ثابت قدمی تھا۔ سونے کا یہ ڈلا خمس میں سے تھا اوراہلِ علم نےاس کو بعید خیال کیا ہے کہ یہ اصل مال غنیمت میں سے تھا، یہ بھی امکان ہے کہ یہ مالِ زکوۃ میں سے ہو۔ جب رسول اللہﷺ نے ان مذکورہ بالا افراد کو دیا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: ان چاروں کی بہ نسبت ہم زیادہ حق رکھتے ہیں کہ یہ مال ہمیں دیا جائے۔ نبی کریم ﷺ کو جب یہ علم ہوا تو آپﷺنے فرمایا: «ألا تأمنوني وأنا أمينُ مَن في السماءِ، يأتيني خبرُ السماءِ صباحًا ومساءً» (تم مجھ پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے جو آسمان پر ہے اور آسمان سے وحی میرے پاس صبح و شام آتی ہے) یعنی اللہ تعالیٰ نے منصب رسالت میں مجھ پر اعتبار کیا ہے اور مجھے زمین پر رسالت سے نوازا ہے اور اے اعتراض کرنے والے اورراہِ راست سے بھٹکے ہوئے جو تیرے ہمنوا ہیں! تم لوگ مجھ پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟! تم مجھ پر دنیا کے حقیر چیز پر اعتبار نہیں کر تےکہ میں اس کو وہاں رکھوں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رکھنا ضروری ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ: «مَن في السماءِ» (جو آسمان میں ہے) یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر بلندی کی دلیل ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو آسمان پر ہے۔ یہاں پر ’’فی‘‘ بمعنی ’’ علی ‘‘ ہے کیوں کہ عرب ’’فی‘‘ کو ’’علی‘‘ کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿فسيحوا في الأرض﴾، (زمین پر چلو پھرو) اور اسی طرح فرمایا: ﴿ولأصلبنكم في جذوع النخل﴾ (کہ میں تمہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دوں گا) تو اس کا مطلب ہے علی الارض(زمین پر) اور علی جذوع النخل(کھجور کےتنوں پر) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ «في السماءِ» (آسمان پر) یعنی آسمان سے اوپر عرش پر۔ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اِس قو ل کے مثل ہے : ﴿أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴿16﴾ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ً﴾. ﴿17﴾’’کیا تم اس بات سے بےخوف ہوگیے ہو کہ آسمان والا تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے اور اچانک زمین لرزنے لگے ، یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگیے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسائے پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا‘‘۔ اس دوران ایک شخص کھڑا ہوا (جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، دونوں رخسار پھولے ہوئے تھے ، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی، گھنی داڑھی اور سر منڈا ہوا ، تہبند ٹخنوں سے اوپر اٹھائے ہوئے تھا، نبی کریم ﷺ سے کہنے لگا: اللہ سے ڈریے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: «وَيْلَك، أَوَلَسْتُ أحقَّ أهل الأرض أن يتقيَ الله» (افسوس تجھ پر کیا میں اس روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں) یعنی نبی کریم ﷺ لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور تقویٰ کا حق رکھتے ہیں۔ یہ اس کا صریح ظلم تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اس لیے کھڑا کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے ڈر کی نصیحت کرے اور آپ ﷺ سے یہ کہے کہ (اللہ سے ڈریے) اس کے باوجود کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کیا تھا وہ عین تقویٰ کے مطابق اور عظیم اطاعات میں شامل تھا کہ آپ ﷺ اللہ کے لیے، اس کے دین کی مدد کے لیے اور لوگوں کی ہدایت کے پیش نظر ان کو نواز رہے تھے۔جب یہ شخص چلا گیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ!مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کو قتل کر دوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لا، لعلَّه أنْ يكون يصلي» (نہیں، ممکن ہے وہ نماز پڑھتا ہو) خالد رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ : بہت سارے نمازی جو زبان سے کچھ کہتے ہیں لیکن ان کے دل میں ویسا نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «إني لم أومَرْ أنْ أُنَقِّبَ عن قلوب الناس ولا أَشُقَّ بطونَهم» (مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا ہے کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا حکم ہوا کہ ان کے پیٹ چاک کروں) یعنی میں لوگوں کےساتھ ان کے ظاہر کے مطابق ہی معاملہ کروں اور ان کے باطن میں کیا ہے اس کو چھوڑ دوں اسے اللہ بہتر جانتا ہے وہ خود ہی اس کا حساب کر لے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ کہنے والے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس (منافق) کی طرف دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر جارہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا «إنه يخرج من ضِئضِئ هذا قومٌ يتلونَ كتابَ اللهِ رَطْبًا، لا يجاوز حناجرَهم، يَمْرُقون من الدين كما يَمْرُق السَّهْمُ مِن الرَّمِيَّة، لئن أدركتُهم لأقتلنَّهم قَتْلَ ثمودَ» (اس کی نسل سے ایک ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ دین سے وہ لوگ اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انھیں قتل کر دیتا) مقصد یہ خبر دینا تھا کہ اس گمراہ آدمی کی نسل سے ایسے افراد آئیں گے جو اس کے راستے پر چلنے والے ہوں گے، قرآن کی کثرت قرأت اور حفظ کی وجہ سے تلاوت بڑی خوش الحانی سے کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے دلوں تک نہیں پہنچے گا۔ اس کا جو مقصود و معنی ہے وہ نہیں سمجھیں گے اورغیر موضوع لہ معنی مراد لیں گے۔ کیوں کہ یہ گمراہ اور جاہل ہوں گے اس لیے اسلام سے بھی بغیر متاثر ہوئے بڑی آسانی اور تیزی سے خارج ہو جائیں گے گویاکہ یہ اسلام میں داخل ہی نہیں تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہوں گے لیکن ایمان ان کے دل میں جگہ نہیں پائے گا، اور نہ ہی ان کے چہروں سے اسلام کا تصور نظر آئے گا اس لیے یہ چیزیں ان کے اوصاف میں شامل ہوں گی کہ: وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے، کافروں کو بتوں کی عبادت کی دعوت دیں گے۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: «لئن أدركتهم، لأقتلنهم قتل ثمود» (اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انھیں قتل کر دیتا) یعنی میں پوری طاقت سے قتل کرتا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑتا۔