الخالق
كلمة (خالق) في اللغة هي اسمُ فاعلٍ من (الخَلْقِ)، وهو يَرجِع إلى...
حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت اور شدت سے استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ سے حکم دریافت کرنے اور آپ ﷺ کو بتانے کے لیے آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے آپ ﷺ کو اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں پایا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ميں ايسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت اور شدت سے آتا ہے، اس کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے مجھے نماز روزے سے روک رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا۔‘‘ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ تو اس سے زیادہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے بھی زيادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو میں تمھیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو۔“ (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو)۔” چنانچہ آپ ﷺنے حمنہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: “یہ استحاضہ تو دراصل شیطانی کچوکا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات روز حیض کے ایام شمار کرو۔ پھر غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ تم پاک وصاف ہوگئی ہو تو تیئیس (23) دن یا چوبیس (24) دن نماز پڑھتی رہو اور روزے رکھو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔ اوراسی طرح ہر ماہ کیا کرو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔ اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لو تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اور گر تم قادر ہو تو روزہ رکھو۔‘‘ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘
حمنہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا مفہوم: ’’مجھے استحاضہ کا خون بہت زیادہ آتا تھا۔‘‘ یعنی ان کا خون بہت لمبے عرصے تک جاری رہتا اور بہت شدت اور تیزی سے نکلتا تھا۔ ’’میں رسول اللہ ﷺ سے حکم دریافت کرنے اور آپ ﷺ کو بتانے کے لئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔‘‘ ” یعنی حمنہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے پاس یہ دریافت کرنے آئیں کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے اور اس سلسلے میں ان پر کیا کرنا واجب ہے۔ ’’چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت اور شدت سے آتا ہے، جس نے مجھے نماز روزے سے روک رکھا ہے۔‘‘ ” یعنی وہ اس آنے والےخون کی وجہ سے نماز روزے سے رکی ہوئی تھیں اس خیال سے کہ یہ حیض کا خون ہے اور شروع میں انہیں ایسے ہی لگا تھا۔ بعد ازاں نبی ﷺ نے ان کے لیے وضاحت فرمائی کہ ان کا اس انداز میں بہنے والا خون حیض کا نہیں بلکہ شیطان کے کچوکے کا اثر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں، کیوں کہ اس سے خون بند ہو جائے گا۔‘‘ یعنی روئی کا استعمال کرو بایں طور کہ اسے اپنی شرم گاہ پر رکھ کر باندھ لو تاکہ خون رک جائے۔ ’’انھوں نے کہا: وہ تواس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ یعنی نکلنے والا خون بہت زیادہ اور شدید ہے اور روئی سے مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر کپڑا رکھ لو۔‘‘ یعنی روئی کے ساتھ ساتھ کپڑا بھی رکھ لو تاکہ یہ دبیز (موٹا) ہوجائے اور اس سے خون رک جائے۔ ’’تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اس سے بھی زيادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے۔‘‘ یعنی خون کثرت اور زور سے بہ رہا ہے، لھٰذا وہ نہ تو روئی سے رکنے والا ہے اور نہ ہی کپڑے سے، کیونکہ وہ بہت زیادہ ہے۔ ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں۔‘‘ یعنی دو حکموں میں سے کسی ایک کا، اور ان دونوں کی تفصیل اس طرح ہے: پہلا: ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے۔ دوسرا: ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھی جائیں اور تیں بار غسل کیا جائے۔ ایک غسل ظہر اور عصر کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لیے اور ایک غسل فجر کے لیے۔ ’’ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے دوسرے کی طرف سے کافی ہو گا۔‘‘ یعنی تمہیں ان دونوں باتوں میں اختیار ہے کہ جو چاہو کر لو۔ ’’اگر تم میں ان دونوں کو کرنے کی طاقت ہے تو تم بہتر جانتی ہو۔‘‘ یعنی پہلے اور دوسرے دونوں کاموں کو کرنے کی اگر تم میں طاقت ہے تو تم اپنے بارے میں زیادہ جانتی ہو۔ بہر حال ان میں سے جو چاہو اختیار کر لو۔ ’’پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ در اصل شیطان کے کچوکے مارنے کا اثر ہے۔‘‘ یعنی شیطان کو ان کے دین، پاکیزگی اور نماز کے بارے میں انہیں اشتباہ میں ڈالنے کا موقع مل گیا یہاں تک کہ اس نے انہیں ان کی عادت بھلوا دی اور وہ اندازہ کرنے کے زمرے میں ہو گئی۔ گویا یہ شیطان کی طرف سے ایک ٹھوکر ہے۔ جبکہ یہ بات اس کے منافی نہیں کہ اس کا سبب "عاذل" نام کی ایک رگ بھی ہو جیسا کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا: ’’میں ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون آتا ہے، جس کی وجہ سے میں پاک نہیں ہوتی۔ تو کیا میں نماز کو چھوڑے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ حیض نہیں بلکہ ایک رگ سے بہنے والا خون ہے۔‘‘ چنانچہ یہ کہا جائے گا کہ شیطان اس رگ پر لات مارتا ہے جس سے یہ پھٹ جاتی ہے۔ راجح یہی ہے کہ وہ حقیقت میں لات مارتا ہے کیونکہ یہ معنیٰ مراد لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ ’’چھ یا سات دن حیض کے شمار کرو۔‘‘ یعنی چھے یا سات دن تک یہ سمجھو کہ تم حیض میں ہو اور ان میں نماز و روزے کو ترک کر دو۔ یہ اس اعتبار سے ہے کہ عموماً عورتوں کو چھ یا سات دن ہی حیض آتا ہے۔ ’’اللہ کے علم میں‘‘ یعنی اللہ کے حکم اور اس کے شریعت کی رو سے۔ آپ ﷺ کے فرمان: ’’چھے یا سات دن‘‘ میں (یا) بیانِ شک کے لیے نہیں ہے، بلکہ تنویع کے لیے اور یہ اس بات پر دلالت کرنے کے لیے ہے کہ بعض عورتوں کو چھے دن حیض آتا ہے اور بعض کے ایامِ حیض سات دن ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی ان قریبی رشتہ دار خواتین کو دیکھے گی جو اس کی ہم عمر ہوں اور ان کا مزاج اس سے ملتا جلتا ہو۔ (اور پھر فیصلہ کریں گی کہ ان کے ایام حیض چھے دن ہوں گے یا سات دن)۔ ’’پھر غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ تم پاک وصاف ہوگئی ہو تو تیئیس (23) دن یا چوبیس (24) دن نماز پڑھتی رہو اور روزے رکھو۔ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔‘‘ یعنی چھے یا سات دن گزر جائیں تو پھر حیض ختم ہو جانے کی وجہ سے تم پر غسل کرنا واجب ہو گا۔ پھر چھے یا سات دن گزرنے کے بعد جتنے دن بچیں گے جو یا تو تیئیس دن ہوں گے یا پھر چوبیس دن، وہ ایامِ طہر ہوں گے۔ ان میں تم وہ سب کچھ کرو گی جو حیض سے پاک عورتیں کرتی ہیں یعنی نماز پڑھو گی اور روزہ رکھو گی۔ تمہارے لئے ایسا کرنا کافی ہے۔ ’’اوراسی طرح ہر ماہ کیا کرو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔ ‘‘ یعنی ہر مہینے میں چھے یا سات دن حیض کے شمار کرو جیسا کہ دیگر عورتوں کے دن ہوتے ہیں۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھو۔ اس طرح سے تمہاری مدتِ طہر اتنی ہی ہو گی جتنی عموماً دیگر عورتوں کی ہوتی ہے یعنی تیئیس یا چوبیس دن۔ ’’اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لو تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اور گر تم قادر ہو تو روزہ رکھو۔‘‘ يعنی اگر تم میں اس بات کی قدرت ہو کہ ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت تک موخر کر دو اور عصر کی نماز کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھ لو اور اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت تک موخر کر دو اور عشاء کو اس کے ابتدائی وقت میں پڑھ لو، جسے علماء جمعِ صوری کہتے ہیں، جب کہ فجر کی نماز کے ليے الگ سے غسل کرليا کرو، اگر تم میں ایسا کرنے کی طاقت ہو تو ایسا کرلو۔ اس طرح سے مستحاضہ عورت تین دفعہ غسل کرے گی۔ ایک غسل ظہر اور عصر کے لیے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لیے اور ایک غسل فجر کی نماز کے لیے اور دو دو نمازوں کے مابین جمعِ صوری کرے گی۔ ’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔” یعنی ظہر اور عصر کی نمازوں اور مغرب اور عشاء کی نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنا اور تمہارا تین دفعہ غسل کرنا بایں طور کہ ایک غسل ظہر اور عصر کے لئے، ایک غسل مغرب اور عشاء کے لئے اور ایک غسل فجر کے لئے مجھے زیادہ پسند ہے۔ پہلی بات ہر نماز کے لیے غسل کرنا ہے لیکن اس حدیث میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا ذکر نہیں ہے، تاہم سنن ابو داود کی ایک اور روایت میں ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کریں۔ اس میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: “اگر تم میں طاقت ہو تو پھر ہر نماز کے لئے غسل کرو، ورنہ ایک غسل کے ساتھ دو دو نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھ لو۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے میں واضح مشقت ہے اسی لیے نبی ﷺ نے دوسری صورت کے بارے میں فرمایا: ’’ان دونوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔‘‘ یعنی ان دونوں میں سے یہ مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ یہ پہلی صورت سے زیادہ سہل اور آسان ہے۔