المحسن
كلمة (المحسن) في اللغة اسم فاعل من الإحسان، وهو إما بمعنى إحسان...
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے پس مرتبے کے اعتبار سے اس کے نزدیک وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں سب سے بڑا ہو۔ ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے اس اس طرح کیا، تو شیطان کہتا ہے: تو نے کوئی (بڑا کام) سر انجام نہیں دیا۔ فرمایا: پھر ان میں سے ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے: میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈال دی، فرمایا: شیطان اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے: ہاں! تو (نے بڑا کام کیا) ہے“۔ اعمش کہتے ہیں: میرا خیال ہے انہوں نے کہا: ”وہ اسے اپنے سے چمٹا لیتا ہے“۔
ابلیس اپنے تخت یعنی تختِ شاہی کو پانی پر رکھتا ہے، پھر جنوں میں سے اپنے لشکریوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں اور انہیں گمراہ کریں، تو مرتبے کے اعتبار سے ابلیس کا سب سے قریبی وہ شیطان ہوتا ہے جو لوگوں کو گمراہ کرنے میں سب زیادہ بڑھا ہوا ہو، ان شیاطین میں سے ایک آتا ہے اور ابلیس سے کہتا ہے: میں نے ایسا اور ایسا کیا یعنی مثال کے طور پر میں نے چوری کا حکم دیا اور شراب پینے پر ابھارا وغیرہ، تو ابلیس اس سے کہتا ہے: تو نے کوئی بہت بڑا کام نہیں کیا یا یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کو کارنامہ شمار کیا جائے، یہاں تک کہ انہیں شیطانوں میں سے ایک اور آتا ہے اور ابلیس سے کہتا ہے: میں نے فلاں کو نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کرادی اور شوہر نے بیوی کو طلاق دے دیا، ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور اسے اپنے سے چمٹا کر اس کا معانقہ کرتا ہے، اور اس سے کہتا ہے: ”ہاں! تو ہے“ یعنی تو ہی وہ شیطان ہے جس نے میری چاہت پوری کر دی اور لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کے مابین فساد برپا کرنے کی میری آرزو و خواہش کو عملی جامہ پہنا دیا۔