الأول
(الأوَّل) كلمةٌ تدل على الترتيب، وهو اسمٌ من أسماء الله الحسنى،...
یسار جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں، روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے طلوع فجر کے بعد (نفل) نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو کہا: اے یسار! ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، تو ہم ایسی ہی نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے جو موجود ہیں، وہ ان لوگوں کو بتا دیں، جو موجود نہیں ہیں کہ فجر کے طلوع ہونے کے بعد دو رکعت (سنت) کے علاوہ کوئی اور (نفل) نماز نہ پڑھو"۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مولی یعنی اپنے آزاد کردہ غلام یسار کو دیکھا کہ وہ طلوع فجر کے بعد فجر کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھ رہے ہیں۔ شاید انھوں نے دو رکعت سے زیادہ نماز پڑھی۔ اس پر انھوں نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: "اے یسار! ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، جب کہ ہم یہی (نفل) نماز پڑھ رہے تھے۔" یعنی نبی ﷺ نے انھیں طلوع فجر (صادق) کے بعد نماز فجر سے پہلے سنت فجر سے زائد نفل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا: " لِيُبَلِّغْ شِاهدكم غَائِبَكم"۔ یعنی نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو مجلس میں موجود ہیں، وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ: "لا تُصلُّوا بعد الفجر" یعنی طلوع فجر کے بعد (نفل) نماز نہ پڑھو۔ اس کی تایید مسند احمد کی ایک اور حدیث سے ہوتی ہے، جس میں ہے کہ: "طلوع فجر کے بعد فجر کی دو رکعت کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہے۔" یعنی طلوع فجر کے بعد دو رکعت سنت کے علاوہ کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "إلا سَجْدَتَيْن"۔ یہاں دو سجدوں سے مراد دو مکمل رکعتیں ہیں اور یہ جز بول کر کل مراد لینے کے قبیل سے ہے، جیسا کہ اس کی وضاحت سابق الذکر روایت میں کی گئی ہے۔ یہی آپ ﷺ کی سنت کے موافق بھی ہے۔ آپ ﷺ طلوع فجر کے بعد دو ہلکی سی رکعتیں پڑھنے کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ جب فجر طلوع ہو جائے تو مسلمان کے لیے نماز فجر کی دو رکعت (سنت) کے علاوہ جائز نہیں کہ کوئی اور نفل نماز پڑھے، جیسا کہ نبی ﷺ کا طریقہ تھا اور سب سے بہتر طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہی ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ طلوع فجر کے بعد سوائے سنتوں کے کوئی نفل نماز نہیں ہے، تو یہ وقت ان اوقات میں شمار کیا جائے گا، جن میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔