ولایت (الوَلَايَة)

ولایت (الوَلَايَة)


العقيدة أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


اصطلاحِ شرع میں ’وِلایت‘ کہتے ہیں اس شرعی طاقت کو جس کے بموجب صاحبِ طاقت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے دینی اور دنیاوی معاملات کى ذمہ داری اٹھائے۔

الشرح المختصر :


’وِلایت‘ ایک شرعی حق ہے، اس کا تقاضہ یہ کہ جس کو یہ حق مل جائے وہ دوسروں پر اپنا حکم نافذ کرے اور ان کى مصلحتوں کى پاسبانی کرے۔ ’ولایت‘ کى دو قسمیں ہیں: 1- ولایتِ خاصہ: یہ ولایت مخصوص اشخاص تک محدود ہے خواہ نفس سے متعلق ہو یا مال سے، جیسے باپ کى ولایت اپنى بیٹی کى شادی کرنے کے سلسلہ میں، شوہر کى ولایت اپنى نافرمان بیوی کو سبق سکھانے اور باپ کی ولایت اپنے کم سن بچے کو ادب سکھانے کے سلسلے میں اور وہ اختیار جو شریعت نے مقتول کے اہلِ خانہ کو دیا ہے، جس کے مطابق وہ چاہیں تو قاتل کو درگزر کردیں یا قصاص میں اس کے خون کا مطالبہ کریں۔ 2- ولایتِ عامہ: یہ ولایت مخصوص اشخاص تک محدود نہیں ہوتى، اور اس وِلایت میں صاحبِ ولایت کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی طرف سے تفویض کے بغیر ہی اس پر کسی امر کو لازم قرار دے اسی طرح اس پر اپنا تصرف نافذ کرے۔ جیسے حاکم، قاضی اور پولیس وغیرہ کى وِلایت۔

التعريف اللغوي المختصر :


امارت، حکومت اور دوسروں کے امور کی دیکھ بھال کرنا۔ آقا، مالک اور حاکم کو ’ولی‘ کہا جاتا ہے۔ لفظِ ”وِلایت“ در اصل ”ولْي“ سے ماخوذ ہے جس کے معنى ہوتے ہیں قربت اور محبت کے۔ اور اس کى ضد بغض اور دوری ہے۔ لفظِ ”وِلایت“ ملکیت، قرابت داری، ریاست اور وراثت وغیرہ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔