یہودیت (الْيَهُودِيَّةُ)

یہودیت (الْيَهُودِيَّةُ)


الثقافة والدعوة العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


عبرانیوں کا مذہب، جو ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کی ذریت سے ہیں، جن کا گمان ہے کہ وہ موسی علیہ السلام کے مذہب کی پیروی کرتے ہیں؛ کیوں کہ انھوں نے اس بر حق دین میں تحریف کر ڈالی تھی، جو موسی علیہ السلام ان کے پاس لے آئے تھے۔

الشرح المختصر :


عبرانیوں کا مذہب، جو ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند اسرائیل (یعقوب علیہ السلام) کی ذریت سے ہیں۔ اُن کی طرف اللہ تعالیٰ نے توریت کی تائید کے ساتھ موسی علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ یہودی اصلاً موحّد اہلِ کتاب ہیں۔ بعد ازاں وہ (تصورِ الٰہ میں) تعدُّد اور تجسیم کے قائل ہوگئے، جس کی وجہ سے ان میں بہت سے نبی مبعوث کیے گئے، تاکہ وہ جب جب الوہیت کے مفہوم میں انحراف کے شکار ہوں، انھیں جادۂ توحید کی طرف لوٹایا جاسکے۔ انھوں نے مصر سے نکلتے ہی ایک بچھڑے کو معبود بنالیا۔ ’اِلٰہ‘ جس کو وہ ’یھوہ‘ کا نام دیتے ہیں (اُس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ) وہ معصوم نہیں؛ بلکہ وہ غلطی کرتا ہے، اُس سے لغزشیں سرزد ہوتی ہیں، وہ ندامت کا شکار ہوتا ہے، وہ سخت گیر ہے، متعصب ہے، اپنے ہی لوگوں کو تباہ وبرباد کرنے والا ہے، وہ صرف بنو اسرائیل ہی کا معبود ہے، بقیہ لوگوں کا دشمن ہے۔ ان کا گمان ہے کہ وہ بادلوں کے ستون کی شکل میں بنو اسرائیل کی ایک جماعت کے آگے آگے چلتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی باتوں سے بہت بلند ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ سارہ علیہا السلام کے بطن سے جنم لینے والے اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام ذبیح ہیں، جب کہ درست بات یہ ہے کہ اسماعیل ذبیح ہیں۔ توریت میں بعث بعد الممات، خلودِ آخرت اور ثواب وعقاب کے بارے میں صرف سرسری ذکر ملتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیزیں یہودیوں کے خود ساختہ مادی افکار کی بناوٹ سے میل نہیں کھاتیں، لہذا وہ ’ثواب‘ سے نصرت وتائید اور ’عقاب‘ سے گھاٹا وخسارہ، ذلت اور غلامی مُراد لیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے چہیتے ہیں اور یہودیوں کی روح (معاذ اللہ) ذاتِ الہی کا جز ہے۔ نیز یہودی اور غیرِ یہودی کے مرتبے میں اُسی قدر فرق ہے، جتنا انسان اور جانور میں ہوتا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


يَہودیت: یہ لفظِ ’ھَوَدَ‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی توبہ اور رجوع کرنے کے ہیں، کہا جاتا ہے ’’هادَ، يَهودُ، هوداً، وتَـهوَّدَ‘‘ کہ اس نے توبہ کیا اورحق کی طرف لوٹ آیا،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عربی لفظ نہیں ہے۔ بلکہ بنی اسرائیل کے ایک قبیلہ یہوذا کی طرف منسوب ہے۔