ستاروں سے بارش مانگنا یا ان کی طرف بارش کی نسبت کرنا۔ (استسقاء بالأنواء)

ستاروں سے بارش مانگنا یا ان کی طرف بارش کی نسبت کرنا۔ (استسقاء بالأنواء)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


ستاروں کے طلوع و غروب ہونے کی طرف بارش کی نسبت کرنا یا ان سے پانی طلب کرنا۔

الشرح المختصر :


استسقاء بالانواء: ستاروں سے پانی مانگنا یا ان کی طرف بارش کی نسبت کرنا۔ ’انواء‘، ’نوء‘ کی جمع ہے۔ اس سے مراد ’چاند کی مختلف منزلیں‘ ہیں۔ یہ علمِ نجوم کا حصہ ہے, جس میں سیاروں کی نقل وحرکت اور ان کی گردش، ان کے طلوع وغروب ہونے اور ان کے ملنے اور جُدا ہونے میں غور کرنا شامل ہے، یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ ان میں سے ہر ستارے کے اکیلے طور پر اس کی تمام حرکتوں میں کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور جب وہ دوسرے ستارے کے ساتھ ملتا ہے تو اس کے کچھ دیگر اثرات ظاہر ہوتے ہیں، یہ اثرات قیمتوں کے مہنگے اور سستے ہونے، ہواؤں کے چلنے اور رُکنے اور واقعات وحادثات کے وقوع پذیر ہونے سے متعلق ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ان سب چیزوں کو مطلقاً ستاروں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ’الاستسقاء بالانواء‘ کی دو صورتیں ہیں: پہلی صورت یہ کہ: یہ اعتقاد رکھنا کہ ستارے ہی بارش برساتے ہیں۔ یہ اعتقاد صریح کفر ہے۔ اس لیے کہ خالق صرف اور صرف اللہ تعالی ہی ہے۔ دوسری صورت یہ کہ: بارش اترنے کو ستاروں کی طرف اس اعتقاد کے ساتھ منسوب کرنا کہ اکیلا اللہ تعالیٰ ہی مؤثر حقیقی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ معمول بنادیا ہے کہ اس ستارے کے ظاہر ہونے کے وقت بارش ہوتی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھنا حرام ہے، اس لیے کہ یہ شرک خفی کے قبیل سے ہے۔ اگر یہاں ’فی‘ کا استعمال کیا جائے اور اس طرح کہا جائے: ’سُقِينا في نَوْءِ كذا‘ یعنی ہمیں فلاں ستارے (نچھتر) میں بارش سے سیراب کیا گیا، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ اس میں بارش کی نسبت ستارے کی طرف نہ تو مستقل طور پر ہے اور نہ سبب کے طور پر ہے۔ (یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہتا ہے کہ فلاں تاریخ میں بارش ہوئی)۔