الإله
(الإله) اسمٌ من أسماء الله تعالى؛ يعني استحقاقَه جل وعلا...
’کثیر النواء‘ کے پیروکار جس کا لقب ’ابتر‘ تھا۔ یہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل انسان ہیں۔ یہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی امامت کو درست مانتے ہیں اور عثمان کے کفر میں توقف کرتے ہیں۔
بتریہ: یہ ’کثیر النواء‘ کے پیروکار ہیں جس کی وفات تقریبا 169 ہجری میں ہوئی۔ ان کے عقائد میں سے کچھ یہ ہیں: ان کے نزدیک امامت کے لیے نص ضروری نہیں کیونکہ امامت کے سلسلے میں یہ شرط نہیں ہے کہ سابقہ امام آئندہ آنے والے امام کی تصریح کرے۔ یعنی امامت وراثتی نہیں ہے بلکہ یہ بیعت پر قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ جو بھی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہے اور اس میں امامت کی شرائط پوری ہوتی ہیں تو وہ اس کا اہل ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل انسان ہیں اور وہی امامت کے زیادہ حق دار تھے تاہم وہ ان کی امامت کو اسی وقت سے تسلیم کرتے ہیں جب ان کی بیعت کی گئی تھی۔ ان کے نزدیک امامت مشورے سے قائم ہوتی ہے اور وہ افضل کی موجود میں مفضول کی امامت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی امامت غلط نہیں تھی کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود انہیں یہ سپرد کی تھی۔ اسی طرح وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے کفر میں توقف اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان کے فضائل کی نصوص اور ان کے طرف منسوب واقعات میں تعارض پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ان کے قاتلوں کو کافر قرار دینے میں بھی توقف کرتے ہیں۔
بتریہ: یہ ’یزیدیہ فرقے‘ کا ایک گروہ ہے جو ’کثیر النواء‘ کی طرف منسوب ہے جس کا نام ’مغیرہ بن سعد‘ اور لقب ’ابتر‘ تھا۔