پینے اور استعمال کے لیے پانی کا توشہ رکھ لینا (تروية)

پینے اور استعمال کے لیے پانی کا توشہ رکھ لینا (تروية)


أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


پانی بھرنا اور اسے اٹھا کر لانا تاکہ اسے پینے اور سیراب کرنے اور اس طرح کے دیگر امور میں استعمال کیا جاسکے۔

الشرح المختصر :


’تَرْوِيَة‘ کی اصطلاح کا اطلاق ’الیوم‘ کی طرف اضافت کے ساتھ ہوتا ہے اور اس یوم سے مراد ذو الحجہ کا آٹھواں دن ہے۔ اس دن حجاج کرام منی کی طرف جاتے ہیں۔ یہ ذو الحجہ کا آٹھواں دن ہوتا ہے اور اسے یہ نام دو اسباب کی وجہ سے دیا گیا ہے: 1- کیونکہ اس دن لوگ پانی بھر کر اپنے اونٹوں وغیرہ کو پلاتے ہیں اور اسے برتنوں اور مشکیزوں میں بھر لیتے ہیں تاکہ وہ عرفہ کی طرف جانے کے لئے تیار ہوجائیں۔ عرفہ کے میدان میں پانی نہیں ہوتا۔ 2- کیونکہ اس دن حاجی لوگ حج کے معاملے میں غور وفکر کرتے ہیں اور اس دن کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے اسے یہ نام اس لئے دیا گیا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے اس دن کی رات کو خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ جب صبح اٹھے تو وہ اس بات میں غور و فکر کر رہے تھے کہ آیا یہ خواب ہے یا پھر اللہ تعالی کی طرف سے حکم؟ اسی وجہ سے اس دن کا نام ’يَوْمُ التَّرْوِيَةِ‘ (غور و فکر کرنے کا دن) پڑ گیا۔

التعريف اللغوي المختصر :


تروية کا لغوی معی ہے پانی بھرنا اور لے کر آنا۔ یہ لفظ دراصل ’ریّ‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: پانی سے سیراب ہونا۔ اس کی ضد ’عطش‘ ہے۔ ایک قول کی رو سے 'تروية‘ کا لفظ دراصل ’تروئة‘ یا ’تروى‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: غور وفکر کرنا۔ کہا جاتا ہے: ”رَوَّأَ يُرَوِّئُ تَرْوِئَةً“ یعنی اس نے معاملے میں غور و فکر کیا۔