الرحيم
كلمة (الرحيم) في اللغة صيغة مبالغة من الرحمة على وزن (فعيل) وهي...
اچھے اعمال اور ثواب کے کام کرنے کی وجہ سے مومن کے ایمان میں جو قوت حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح بُرائیوں اور حرام کاموں کے ارتکاب کی وجہ سے ایمان میں جو کمزوری پیدا ہوتی ہے، اسے ایمان کا گھٹنا بڑھنا کہاجاتا ہے۔
اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے۔ اور اہلِ ایمان اپنے علم اور عمل کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ ان میں سے بعض دوسروں سے ایمان کے اعتبار سے کامل ہیں۔ قرآن کریم، احادیثِ نبویہ اور سلف صالحین کے اقوال میں ایسے بہت سارے دلائل ہیں جو ایمان کے مختلف درجات اور شعبے نیز اس میں کمی و زیادتی کے واقع ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ایمان عقیدے کی مضبوطی اور پختگی، اچھے اعمال و اقوال اور ان کی زیادتی، دل اور اعضاء کے اعمال اور زبان کے اقوال، جیسے نیکیاں اور تمام عبادات کی وجہ سے بڑھتا ہے اور اس کے برعکس دوسرے افعال جیسے بُرائیوں اور گناہوں کی وجہ سے کم ہوتا ہے۔ جب بندہ اللہ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کی پابندی کرتا ہے، تو اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔ اور جب وہ اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے ایمان میں اسی کے بقدر کمی آتی ہے۔ ایمان کی کمی اور زیادتی کےکئی اسباب اور وجوہات ہیں۔ البتہ یہ تمام وجوہات فی الجملہ دو چیزوں کی طرف لوٹتی ہیں: 1. اللہ کے اوامر واحکام کے سبب ایمان میں زیادتی، چنانچہ اسلام کے اولین دور میں مسلمان ایک معین مقدار کے ایمان کو اختیار کرنے پر مامور تھے بعد ازاں انہیں مزید دیگر اوامر کا حکم دیا گیا۔ 2. دوسرا سبب بندے کے اپنے افعال کی طرف لوٹتا ہے، چنانچہ اس بندہ کا ایمان جو واجبات کی ادائگی کرتا ہے اس بندے کی طرح نہیں ہو سکتا جو واجبات میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ہر وہ نص جو ایمان کی زیادتی پر دلالت کرتی ہے وہ اس کی کمی اور نقصان کو بھی متضمن ہے، اسی طرح اس کے برعکس ہے۔ اس لیے کہ زیادتی اور کمی ایک دوسرے کو لازم ملزوم ہیں۔ کیونکہ جس چیز میں زیادتی ممکن ہو اس میں کمی بھی ممکن ہوتی ہے۔